03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اسی مرتبہ درود شریف پڑھنے سے متعلق حدیث کی تحقیق
86758/64حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مشہور حدیث کے بارے میں کہ جو شخص اسی مرتبہ بروز جمعہ نماز عصر کے بعد "اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله، وسلم" پڑھے تو اس کے اسی سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

اس درود شریف پر مشتمل حدیث مبارک کے بارے میں درج ذیل امور حل طلب ہیں:

  1. اس درود شریف کو پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
  2. اس حدیث مبارکہ کی اسنادی حیثیت کیا ہے؟
  3. بعض حضرات اس حدیث کی تصحیح فرماتے ہیں ، کیا وہ تصحیح درست ہے؟
  4. اگر حدیث ضعیف ہے تو کیا فضائل اعمال میں قابل قبول ہے یا نہیں؟
  5. براہ کرم مکمل مدلل ومحقق جواب عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

درود شریف اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حضور ﷺ کی شفاعت کاذریعہ ہے، جس کی کثرت کا ہر مسلمان کوسارا سال اہتمام کرنا چاہیے ، خاص کر جمعہ ایک بابرکت دن ہے اور احادیث میں بروز جمعہ درود شریف کی کثرت کی تاکید بھی وارد ہوئی ہے،(1) اس لیے دیگر ایام کی بنسبت جمعہ کے دن بلا کسی قید وشرط درود شریف کی کثرت کرنی چاہیے۔

تاہم سوال میں ذکر کردہ درود شریف پڑھنے کی فضیلت سے متعلق ر وایات کسی معتبر سند سے  ثابت نہیں ، بلکہ:

  1. جمعہ کے دن  عصر کی نماز کے بعداپنی جگہ چھوڑنے سے پہلے اسّی مرتبہ " اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله، وسلم تسليما" پڑھنے پر اسّی سال کے عبادت کا ثواب اور اسّی سال کے گناہ معاف ہونے کی فضیلت سے متعلق روایت کی کوئی اصل نہیں ہے۔
  2. اسی طرح  جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اسّی مرتبہ " اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله، وسلم" پڑھنے سے صرف اسّی سال کے گناہ معاف ہونے کی فضیلت سے متعلق روایت کی بھی کوئی اصل نہیں ہے۔
  3. جمعہ کے دن کسی بھی وقت کوئی بھی درودشریف اسّی مرتبہ پڑھنے پر اسّی سال کے گناہ معاف ہونے کی فضیلت پر مشتمل حضرت ابو ہریرہ ﷛ سے مسندًا ، ومرسلاً مروی حدیث پر  حافظ ابن حجرؒ نے   منکر کاحکم لگایا  ہے۔
  4. جمعہ کے دن کسی بھی وقت اسّی یا دوسو مرتبہ "اللهم صلي على محمد عبدك ونبيك ورسولك النبي الأمي" پڑھنے سے اسّی سال کے گناہ معاف ہونے کی فضیلت پر مشتمل حضرت انس ﷛ سے مروی حدیث   پر حافظ ذہبیؒ نے  موضوع کا حکم لگایاہے۔

 جمعہ کے دن کسی بھی وقت کوئی بھی درودشریف چالیس مرتبہ پڑھنے پر چالیس سال کے گناہ معاف ہونے کی فضیلت پر مشتمل حضرت انس ﷛ سے مروی حدیث کی سند میں محمد بن رزام البصری راوی متفرد ہیں، جو متہم بالکذب، متہم بالوضع ، متروک ، ذاہب الحدیث اور اباطیل روایت کرنے والے راوی ہیں ، جس کی وجہ سے یہ روایت بھی قابل قبول نہیں ہے۔

لہذا سوال میں مذکور درود شریف کا ورد اس خاص فضیلت کے حصول کی غرض سے خاص وقت کا اہتمام کرتے ہوئے درست نہیں۔ نیز مذکورہ روایات کا ضعف اس قدر شدید ہے کہ انہیں ترغیب کے لیے فضائل اعمال میں بیان کرنا ، مساجد میں پینا فلیکس لگا کر یا کسی دوسرے طریقے سے اس کی تشہیر کرنا درست نہیں ہے۔

البتہ اگر کوئی بلا کسی قید و شرط کے کسی خاص اجر کی نیت کے بغیر درود شریف کے مذکورہ کلمات " اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله، وسلم تسليما" سے رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجے تو اس میں  کوئی حرج نہیں۔

مذکورہ بالا روایات کی تفصیل اور فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بیان کرنے کی شرائط بالترتیب درج ذیل ہیں:

پہلی روایت جو زیادہ مشہور ہے:

"من صلى صلاة العصر من يوم الجمعة، فقال قبل أن يقوم من مكانه: اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله، وسلم تسليما ثمانين مرة: غفرت له ذنوب ثمانين عاما، وكتبت له عبادة ثمانين سنة".

اس روایت میں جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اپنی جگہ چھوڑنے سے پہلے مذکورہ درود شریف پڑھنے پر اسی سال کے گناہ کی معافی اور اسی سال کی عبادت کا ثواب مذکور ہے۔ یہ روایت علامہ سخاوی ؒ (متوفی 643 ہجری) نے "القول البدیع" میں ابو القاسم خلف بن عبد الملك ، ابن بشكوال الأندلسيؒ (متوفی 578 ہجری) کے حوالہ سے ذکر فرمائی ہے۔(2) ابن بشکوال ؒنے اس درود شریف سے متعلق تمام روایات اپنی کتاب"القربة إلى رب العالمين بالصلاة على النبي ﷺ سيد المرسلين" میں ذکر فرمائی ہیں، لیکن مذکورہ روایت "القربہ"کے مطبوع نسخے میں نہیں ملی، مطبوع میں سقط کے احتمال کی بناء پر اس کا مخطوط نسخہ بھی حاصل کیا گیا،(3) مگر اس میں بھی مذکورہ روایت نہ مل سکی۔نیز تلاش بسیار کے باوجود"القربہ" کے علاوہ کسی اور کتاب میں بھی یہ روایت نہیں مل سکی۔بنا بریں اس روایت کی کوئی ایسی اصل نہیں ہے جو قابلِ اعتماد ہو۔

دوسری روایت جس سے متعلق آپ کا سوال ہے:

دوسری روایت ابن بشکول ؒ نے اپنی کتاب "القربة إلى رب العالمين بالصلاة على النبي ﷺ سيد المرسلين" میں بلا سند یوں ذکر فرمائی ہے:

 قال شيخنا أبو القاسم: وروينا عن سهل بن عبد الله أنه قال: من قال في يوم الجمعة بعد العصر: "اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله وسلم، ثمانين مرة: غفرت له ذنوب ثمانين سنة"(4).

اس روایت کا پہلی روایت کے متن سے فرق درج ذیل ہے:

  1. اس روایت میں "وسلم" کے بعد "تسليما" کے الفاظ نہیں ہیں ۔
  2. صرف اسی سال کے گناہ معاف ہونے کا ذکر ہے، اسّی سال کی عبادت کے ثواب کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
  3. نماز کے بعد اپنی جگہ چھوڑنے سے پہلے پڑھنے کی شرط بھی نہیں ہے۔

بعض فتاوی میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مذکورہ روایت کی درج ذیل سند ذکر کی گئی ہے اور پھر اسی سند کی بنیاد پر روایت کی تصحیح بھی کی ہے:

ابن بشكوال، عن أبي القاسم أحمد بن محمد أحمد، عن أبي عبد الله محمد بن الفرج القرطبي، عن أبي الوليد يوسف بن عبد الله بن المغيث، عن أبي عيسى يحيى بن عبد الله الليثي، عن يحيى بن يحيى بن كثير المصمودي، عن الإمام مالك، عن سهل بن عبد الله.

لیکن مذکورہ سند کی بنا ء پر اس روایت کو صحیح قرار دینا بوجوہ درست نہیں:

  1. مذکورہ روایت کا اس " ترکیبہ اسنادیہ" کے ساتھ دواوینِ سنت میں کہیں وجود نہیں ملتا۔
  2. یحیی بن یحیی اللیثی المصمودی نے امام مالکؒ سے ان کی زندگی کے آخری ایام میں صرف موطا سنی، البتہ موطا میں ابواب اعتکاف کی احادیث سننے میں انہیں تردد تھا؛ تو انہوں نے مذکورہ ابواب کی احادیث" زياد بن عبد الرحمن " کے واسطے سے موطأ میں تخریج کیں (5) اگر مذکورہ روایت انہوں نے امام مالک ؒسے سنی ہوتی تو ان کی روایت کردہ موطا میں ضرور ہوتی۔
  3. امام مالک ؒکے شیوخ میں سہل بن عبد اللہ نام کے کوئی شیخ نہیں ۔
  4. سہل بن عبد اللہ نام سے کوئی صحابی مشہور نہیں ہے، البتہ سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے والد (ابو حثمہ) کے نام کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، کسی نے انہیں عامر قرار دیا ہے تو کسی نے عبد اللہ، اگر مذکورہ صحابی کے والد کا نام عبد اللہ مان لیا جائے تو بھی زیر نظر روایت میں سہل بن عبد اللہ کو سہل بن ابی حثمہ صحابی قرار دینا درست معلوم نہیں ہوتا؛ کیونکہ مذکورہ صحابی کا ذکر کتب متون ِسنہ میں تقریبا 249 مرتبہ آیا ہے اور کسی میں بھی ان کا تذکرہ "سہل بن عبد اللہ "سے نہیں آیا۔ اور امام مالکؒ کا ان سے روایت کرنا یہ ان کے صحابی نہ ہونے کا بڑا قرینہ ہے؛ کیونکہ امام مالکؒ اتباع التابعین کے طبقہ میں شمار ہوتے ہیں، ان کا کسی بھی صحابی سے لقاء ثابت نہیں۔

بہر حال اس دوسری روایت کی بھی کوئی اصل نہیں ، جس پر اعتماد کیا جاسکے۔

تیسری روایت:

یہ روایت حضرت ابو ہریرہ ﷛ سے مروی ہے، جو ضعیف، بلکہ شدید الضعف اور منکر ہے۔حدیث کا مدار سکن بن ابی السکن ہیں اور ان سے دو راوی روایت کرتے ہیں:

  1. عَوْن بن عُمَارہ

عَوْن بن عُمَارہ سند اور متن اس طرح ذکر کرتے ہیں:

عون بن عمارة، أنا سكن البرجمي، عن حجاج بن سنان، عن علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله ﷺ: «الصلاة علي نور على الصراط، فمن صلى علي يوم الجمعة ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عاما».

اس روایت کا پہلی روایت کے متن سے فرق درج ذیل ہے:

  1. مذکورہ درود شریف کے الفاظ اس میں نہیں، بلکہ کسی بھی درود شریف پڑھنے پر مذکورہ فضیلت ہے ۔
  2. عصر کی نماز کے بعد پڑھنے کی شرط اس میں نہیں، بلکہ مطلقا جمعہ کے دن پڑھنے کا ذکر ہے۔
  3. صرف اسّی سال کے گناہ معاف ہونے کی فضیلت ہے، اسّی سال کی عبادت کے ثواب کا کوئی تذکرہ نہیں۔

عَوْن بن عُمَارہ شدید الضعف راوی ہیں، چنانچہ امام ابو حاتمؒ اور امام ابو زرعہ رازیؒ نے انہیں "مُنكَر الحدیث"  اور حافظ ذہبیؒ نے "واہی " قرار دیا ہے۔ (6)

 مزید برآں اس سند کی روایت میں بھی یہ مضطرب ہیں، کبھی حضرت ابو ہریرہ ﷛ کا ذکر جزم کے ساتھ کرتے

ہیں(7) تو کبھی شک کے ساتھ(8) اور اضطراب موجبِ ضعف امر ہے،(9) جس سے عون بن عمارہ کی روایت کا ضعف مزید  بڑھ جاتا ہے۔

منصور بن صُقَيْر/سُقَيْر

منصور بن صُقَيْر سند اور متن اس طرح ذکر کرتے ہیں:

منصور بن صقير، عن سكن بن أبي السكن البرجمي، عن علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب -مرسلًا- قال: قال رسول الله ﷺ: «الصلاة علي نور على الصراط، ومن صلى علي في يوم جمعة ثمانين مرة، غفر له خطايا ثمانين عاما، ومن أدركه الموت وهو في طلب العلم لم تكن بينه وبين الأنبياء في الجنة إلا درجة واحدة».(10)

منصور بن صُقَيْر بھی ضعیف اور مضطرب الحدیث راوی ہیں(11) جو سند میں عون بن عمارہ سے اختلاف کرتے ہوئے السکن بن ابی السكن کے شیخ حجاج بن سنان کو ذکر نہیں کرتے اور سعید بن المسیب سے مرسلا روایت کرتے ہیں،جبکہ متن کچھ اضافے کے ساتھ عَوْن بن عُمَارہ کی طرح ذکر کرتے ہیں۔

نیز درج ذیل دو وجوہ کی بنا ء پر حضرت ابو ہریرہ ﷛ کی روایت میں ضعف مزید شدت اختیار کرجاتا ہے:

  1. مکثر شیخ سے ضعیف راوی کا تفرد

سعید بن المسیب بڑے پائے کے مکثر امام ہیں، ان کے شاگرد وں میں بڑے پایہ کے ائمہ حفاظ متقنین ہیں جو ان کی مرویات کا انتہائی اہتمام کرتے ہیں، مگر ان میں سے کوئی بھی ابن المسیب سے یہ حدیث روایت نہیں

کرتے سوائے علی بن زيد بن جدعان کے ،جو ضعیف ہیں۔(12)اور سعید بن المسیب جیسے امام سے علی بن زيد بن جدعان جیسے ضعیف راوی کا تفرد قابل قبول نہیں ہے۔(13)

  1. تفرد در تفرد

پھر علی بن زيد بن جدعان سے حجاج بن سنان متفرد ہیں جو متروک الحدیث ہیں ۔(14)اور ان سے السکن بن ابی السکن متفرد ہیں اور وہ بھی ضعیف ہیں ، اس طرح سند میں ایسے چار روات کے تفرد کا پورا ایک سلسلہ ہے(15) جن میں کسی کا تفرد بھی قابل قبول نہیں ہے۔(16)

یوں اس حدیث میں بیک وقت کئی قوادح موجود ہیں، جس سے اس حدیث کا ضعف منکر درجہ تک پہنچ جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر ؒنے اسے منکر کہا ہے۔

اقوال النقاد

قال الإمام الدارقطني: غريب من علي بن زيد عنه، تفرد به الحجاج بن سنان، وعنه السكن بن إبراهيم البرجمي، وعنه عون بن عمارة.(17) وقال الحافظ ابن حجر، وعبد الرؤوف المناوي تعليقا على قول

 الإمام الدارقطني: والأربعة ضعفاء.(18)

وقال الحافظ ابن حجر في ترجمة حجاج بن سنان: حديث منكر.(19) وقال أيضًا: غريب.(20)

البتہ حافظ زین الدین العراقی ؒنے حدیث کی تخریج اور امام دارقطنی ؒکی تضعیف ذکر کرنے کے بعد ابن النعمان کا قول ذکر کیا ہے جنہوں نے حدیث کو حسن کہا ہے۔(21) بظاہر ابن النعمان سے مراد ابو عبد الله محمد بن موسى شمس الدين ا بن النعمان (متوفی 683 ہجری) ہے، جن کی دیگر ائمہِ نقد کی بنسبت نقدِ مرویات میں شہرت نہیں ہے، خود حافظ عراقؒی نے اپنی کتاب میں ابن النعمان سے صرف یہی ایک قول ذکر کیا ہے۔اگر ان کا تقابل امام دارقطنی اور حافظ ابن حجر سے کیا جائے تو ترجیح ان دو ائمہ کے قول کو ہوگی ۔ خصوصا مندرجہ بالا نکات پر غور کرنے کے بعد اس روایت (جس میں ضعیف اور متروک درجے کے راوی ہیں اور روایت میں نکارت اور غرابت ہے) کی تحسین کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔یہی وجہ ہے کہ علامہ سخاوی ؒنے تحسین کا قول ذکر کرنے کے بعد فرمایا: "ويحتاج إلى نظر".(22) لہذا مذکورہ روایت کا منکر ہونا ہی درست اور احوط ہے اوریہی قواعد کا تقاضا بھی ہے۔

ملاحظہ: عون بن عمارہ کی مذکورہ حدیث ابو الفتح الازدیؒ نے بھی تخریج کی ہے، لیکن اس میں عون بن عمارہ کے شیخ السکن البرجمی کی بجائے زکریا بن عبد الرحمن البرجمی ہے۔(23) اور روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، نیز روایت کا ابو الفتح الازدیؒ کی کتاب "الضعفاء والمتروکون" اور امام ذہبیؒ کی کتاب "میزان الاعتدال" میں ہونا ہی اس کے باطل ہونے کی کافی دلیل ہے؛ کیونکہ یہ دونوں کتابیں اباطیل اور مناکیر روایات کے مظان میں سے ہیں۔ اگر اس روایت کو درست قرار دیا جائے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ حجاج بن سنان سے السکن البرجمی متفرد نہیں ہیں، بلکہ زکریا البرجمی ان کے متابع ہیں، جبکہ امام دارقطنیؒ نے حجاج بن سنان سے السکن البرجمی کو متفرد قرار دیا ہے۔ البتہ دونوں کی نسبت البرجمی ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ ازدی سے نام ذکر کرنے میں اشتباہ ہوگیا ہو؛ کیونکہ وہ خود ضعیف راوی ہیں۔ (24) لہذا راجح یہ معلوم ہوتا ہے کہ زیرِ بحث روایت میں عون بن عمارہ کے شیخ السکن بن ابی السکن البرجمی ہیں۔ اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ عون بن عمارہ کے شیوخ میں زکریا بن عبد الرحمن البرجمی کا کوئی ذکر نہیں ملتا، بلکہ السکن بن ابی السکن البرجمی کا ذکر ملتا ہے۔ (25)

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ السکن بن ابی السکن البرجمی نام کے تین راوی ہیں: السکن بن اسماعیل، السکن بن سلیمان اور السکن بن ابراہیم۔ امام بخاریؒ اور ابن ابی حاتمؒ نے پہلے دو روات کو الگ الگ قرار دیا ہے، جبکہ جمال الدین المزیؒ نے دونوں کو ایک قرار دیا ہے (26) بہر صورت السکن "ابن اسماعیل" ہو یا "ابن سلیمان" یہ ثقہ ہیں۔جبکہ زیر بحث روایت میں السکن سے مراد "ابن ابراہیم " ہیں، امام دارقطنیؒ نے اس کی تصریح کی ہے، نیز عون بن عمارہ کے شیوخ میں مزیؒ نے ان کے والد(ابو السکن) کا نام ابراہیم ذکر کیا ہے۔(27) اس سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجرؒ اور حافظ مناویؒ نے جن کی تضعیف کی ہے وہ "ابن ابراہیم" ہیں نہ کہ "ابن اسماعیل" یا"ابن سلیمان" جن کی ائمہ نے توثیق کی ہے۔

البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ السکن بن ابراہیم(جن کی تضعیف حافظ ابن حجرؒ اور حافظ مناویؒ کی ہے) کی امام دارقطنیؒ نے توثیق کی ہے۔(28)

 اولًا تو اس توثیق سے امام دارقطنیؒ کی مراد یا تعدیل ہے؛ بایں معنی کہ ان کی مراد اس سے راوی کی صدق و امانت پر تنبیہ کرناہے، نہ کہ توثیق اصطلاحی جو عدالت دینیہ اور ضبط دونوں کو شامل ہے، اور ثقہ بول کر صرف عدالت دینیہ مراد لینا ، ائمہ کی تطبیقات میں اس کے متعدد نظائر ہیں اور اس پر قرینہ حافظ ابن حجرؒ اور حافظ مناویؒ کی تضعیف ہے۔ اور جدلًا اگر انہیں ثقہ مان بھی لیا جائے تو بھی روایت کے حکم میں کوئی فرق نہیں آئے گا؛ کیونکہ روایت میں باقی وہ تمام قوادح بدستور موجود ہیں، جن کا پہلے ذکر ہوچکا۔

چوتھی روایت:

یہ روایت حضرت انس بن مالک ﷛ سے دو وجوہ سے مروی ہے:

وجہ اول:

"رواه وهب بن داود، قال: نا إسماعيل بن إبراهيم، قال: نا عبد العزيز بن صهيب، عن أنس بن مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال:"من صلى علي يوم الجمعة ثمانين مرة الجمعة غفر الله له ذنوب ثمانين عاما فقيل له كيف الصلاة عليك قال يقول اللهم صلي على محمد عبدك ونبيك ورسولك النبي الأمي ويعقد واحدة".

حضرت انس ﷛ سےمذکورہ روایت دو وجوہ سے مروی ہے، ایک میں اسّی مرتبہ(29) اور دوسری وجہ میں دوسو مرتبہ(30) ان الفاظ کے ساتھ: "اللهم صلي على محمد عبدك ونبيك ورسولك النبي الأمي" درود شریف پڑھنے پر صرف اسی سال کے گناہ معاف ہونے کی فضیلت ہے، اسی سال کی عبادت کے ثواب کا کوئی تذکرہ ہے اور نہ ہی عصر کی نماز کے بعد پڑھنے کا تذکرہ ہے۔

مذکورہ سند (إسماعيل بن إبراهيم بن علية، عن عبد العزيز بن صهيب، عن أنس بن مالك) مشہور سند ہے، جس سے سینکڑوں احادیث مروی ہیں، صرف صحیحین میں اس سند سے مروی روایات کی تعداد 25 ہے۔ لیکن اس مشہور سند کو روایت کرنے والے وہب بن داود متفرد ہیں، جن کے بارے میں خطیب بغدادی نے فرمایا: "لم يكن ثقةً" اور یہ جرح شدید ہے، جس کی روایت مقبول نہیں ہے ۔(31)

اقوال النقاد

حافظ ذہبی نے اس حدیث کو موضوع کہا ہے اور ابن الجوزی نے بھی اس کی تضعیف کی ہے۔

قال ابن الجوزي: "هذا حديث لا يصحُّ".(32)

وقال الذهبي: قال الخطيب: لم يكن -أي وهب بن داود- بثقة، ثم أورد له حديثا من وضعه(33)-وهو هذا الحديث المدروس-.

تنبیہ: حافظ سخاویؒ نے امام دارقطنی ؒ کے حوالے سے جو روایت ذکر فرمائی ہےاس میں مندرجہ بالا حضرت انس ﷛ کی روایت کا متن ذکر فرمایا ہے، یعنی اس میں درود شریف  کے یہ "اللهم صلي على محمد عبدك ونبيك ورسولك النبي الأمي"  کلمات ذکرفرمائےہیں، حالانکہ امام دارقطنیؒ نے جس روایت کی تخریج فرماکر غریب کا حکم لگایا ہے وہ حضرت ابو ہریرہ  کی روایت ہے، جس میں درود شریف کے مذکورہ کلمات نہیں ہیں۔نیز امام دارقطنیؒ کے طریق سے مذکورہ روایت "زهر الفردوس" (5/465) (الحديث رقم 1893) اور"نتائج الأفكار في تخريج أحاديث الأذكار" (5/55) میں پوری سند کے ساتھ موجود ہے اور اس میں درود شریف کے مذکورہ کلمات نہیں ہیں۔(34) اسی طرح جلال الدین سیوطیؒ نے "الجامع الصغير " (الحديث رقم ‌‌8003) میں مذکورہ روایت امام دارقطنیؒ کے حوالے سے معلّقا ذکر فرمائی ہے اور اس میں بھی مذکورہ کلمات نہیں ہیں۔علاوہ ازیں باقی جن حضرات نے حضرت ابو ہریرہ  کی حدیث کی تخریج فرمائی ہے اس میں بھی مذکورہ کلمات نہیں ہیں۔بظاہر حافظ سخاویؒ سے امام دارقطنیؒ کی ذکر کردہ متن نقل کرنے میں تسامح ہوا ہے واللہ تعالی اعلم۔

وجہ ثانی:

"رواه محمد بن رزام، عن محمد بن عمرو، عن مالك بن دينار وأبان، عن أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه، قال: قال رسول الله ﷺ: «من صلى علي في كل يوم جمعة أربعين مرة محا الله عنه ذنوب أربعين سنة، ومن صلى علي مرة واحدة فتقبلت منه، محا الله عنه ذنوب ثمانين سنة، ومن قرأ: قل هو الله أحد أربعين مرة حتى يختم السورة بنى الله له مناراً في جسر جهنم حتى يجاوز الجسر».(35)

اس روایت میں جمعہ کے دن کسی بھی وقت چالیس بار کوئی بھی درود شریف پڑھنے پر چالیس سال کے گناہ معاف ہونے کا ذکر ہے۔اوراگر کوئی ایک بار پڑھے اور وہ قبول ہوجائے تو اسی سال کے گناہ معاف ہونے کی فضیلت اسے حاصل ہوگی۔ اسی طرح آخر میں سورہ اخلاص پڑھنے کی فضیلت کا اضافہ بھی ہے۔

اس سند کو روایت کرنے میں محمد بن رزام البصری متفرد ہیں، جو متہم بالکذب، متہم بالوضع ، متروک ، ذاہب الحدیث

اور اباطیل روایت کرنے والے راوی ہیں۔ (36) جس کی وجہ سے یہ روایت بھی معتبر نہیں ہے۔

اہم بات جو ان تمام روایات میں مشترک ہے اور انہیں مشکوک بناتی ہے وہ مذکورہ انتہائی قلیل عمل پر اتنے عظیم اجر کی فضیلت ہے، اس طرح مبالغہ والی فضیلتیں حدیث کے موضوع ہونے کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔(37)

تعجب خیز امر یہ ہے کہ اتنی عظیم فضیلت جو اتنے کم عمل پر ملتی ہے، اسے تو بہت زیادہ مشہور ہونا چاہیے تھا، حالانکہ اس کو روایت کرنے والے صرف منکر الحدیث، متروک، متہم اور ضعیف روات ہیں!!!

نیز یہ روایات مشہور دواوین سنہ خصوصًا عصر الروایہ اور ان کے قریبی زمانہ کے کسی بھی محدث نے اپنی کتاب میں ذکر نہیں کی ۔ یہ روایت جن کتب میں ہے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے ان کتابوں کو طبقہ رابعہ میں شمار کیا ہے، جن میں ضعیف، باطل اور موضوع احادیث بکثرت پائی جاتی ہیں۔

فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کا حکم

فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی درج ذیل شرائط ہیں:

  1. حدیث سے احکام شرعیہ ، مثلا حلال و حرام اور احکام اعتقادیہ کا ثبوت یا نفی نہ ہوتی ہو، بلکہ حدیث سے محض ترغیب وترہیب کا فائدہ ہوتا ہو۔
  2. حدیث کا تعلق ایسے عمل کی فضیلت سے ہو جو فی الجملہ دوسرے قوی دلائل سے ثابت ہو، مثلا تلاوتِ قرآن پاک، ذکر واذکار، صدقہ کرنے، لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے وغیرہ نیک کاموں کی فضیلت اور جھوٹ، خیانت وغیرہ گناہ کے کاموں پر وعید سے متعلق ہو۔
  3. حدیث کا ضعف شدید نہ ہو، یعنی ایسا ضعف ہو جو متابعات اور شواہد سے منجبر ہوسکتا ہو۔ لہذا جس راوی کی عدالت یا ضبط پر شدید جرح کی گئی ہو اس کی روایت کسی بھی حال میں قبول نہیں کی جائے گی ، خصوصا جب روایت کرنے میں مذکورہ بالا قوادح بھی ہوں۔
  4. اس کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھا جائے، بلکہ ضعیف ہونے کا اعتقاد رکھا جائے ؛ تاکہ حضور ﷺ کی طرف کسی غیر محقق قول کی نسبت لازم نہ آئے۔
  5. اس کی تشہیرنہ کی جائے؛ تاکہ کہیں عوام الناس جنہیں صحیح اور ضعیف حدیث کا علم نہیں ہوتا اسے صحیح ثابت شدہ اور سنت نہ سمجھیں۔(38)

خلاصہ یہ کہ مذکورہ روایات میں بعض کی کوئی اصل نہیں اور بعض کو ائمہ نے منکر اور موضوع کہا ہے ، لہذا جب درود شریف کی فضیلت پر دوسری صحیح روایات موجود ہیں تو  درج بالا روایات کو درود شریف پڑھنے کی ترغیب کے لیے بیان کرنا جائز نہیں اور نہ ہی بطور حدیث اس کی تشہیر کرنا جائز ہے۔

حوالہ جات

(1) أخرج الإمام ابن أبي شيبة (5/411) (الحديث رقم 8936) –ومن طريقه: ابن ماجه (صـ 254) (الحديث رقم 1085)، وابن أبي عاصم في "الآحاد والمثاني" (3/217) (الحديث رقم 1577) وفي "الصلاة على النبي" (صـ 49) (الحديث رقم 63)-، وأحمد (26/84) (الحديث رقم 16162)، والدارمي (2/981) (الحديث رقم 1613)، وأبو داود (1/405) (الحديث رقم 1047)، والبزار (8/411) (الحديث رقم 3485)، والنسائي في " المجتبى" (3/91) (الحديث رقم 1374)، وفي "السنن الكبرى" (2/262) (الحديث رقم 1678)، وابن خزيمة (3/118) (الحديث رقم 1733) من حديث أوس بن أبى أوس –مطوَّلا ومختصرا- قال: قال رسولﷺ: «إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة، ‌فيه ‌خلق ‌آدم، وفيه النفخة، وفيه الصعقة، فأكثروا علي ‌من ‌الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي"، فقال رجل: يا رسول الله كيف تعرض صلاتنا عليك وقد أرمت؟ يعني بليت فقال: "إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء"».

([2]) السخاوي، القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع" (صـ 199)

([3]) الخزانة العامة بالرباط، المخطوط رقم 242/ق، وعنها نسخة مصورة في جامعة الإمام محمد بن سعود، رقم 6362/ف.

([4]) ابن بشكوال، "القربة إلى رب العالمين بالصلاة على النبي ﷺ سيد المرسلين" (صـ: 148) (الحديث رقم 111).

([5) قال الذهبي في " تاريخ الإسلام" (5/972) (الترجمة رقم 495): "رحل –أي يحيى المصمودي- إلى المشرق وهو ابن بضع وعشرين سنة في آخر أيام مالك، فسمع من مالك ‌"الموطأ" غير أبواب من الاعتكاف، شك في سماعها، فرواها عن زياد، عن مالك".

([6]) هو: أبو محمد عون بن عمارة العبدي القيسي البصري، قال أبو زرعة: منكر الحديث، وقال أبو حاتم: أدركته ولم أكتب عنه، وكان منكر الحديث، ضعيف الحديث. وسئل أبو زرعة عن ‌عون ‌بن عمارة، فقال: منكر الحديث. وقال البخاري: ‌عون ‌بن ‌عمارة بصري سمع هشام بن حسان ‌تعرف ‌وتنكر. وقال أيضًا -لما ذكر حديثه من طريق أبي قتادة: "الآيات بعد المئتين"-: فقد مضى مئتان، ولم يأت من الآيات شيء. وقال أبو داود: ضعيف. ‌وقال ‌أبو ‌أحمد ‌الحاكم: ‌في ‌حديثه ‌بعض ‌المناكير. وقال أبو عبد الله الحاكم، وأبو نعيم: ‌يحدث ‌عن ‌حميد ‌وهشام ‌بن ‌حسان ‌بالمناكير. وقال محمد بن طاهر المقدسي: هو ممن كثر خطؤه فلا يحتج به. وقال الذهبي في "المقتنى في سرد الكنى" (2/53) (الترجمة رقم 5465): واه. انظر: ابن أبي حاتم، "الجرح والتعديل" (6/338) (الترجمة رقم 2160)، وابن عدي، "الكامل في ضعفاء الرجال" (7/102) (الترجمة رقم ‌‌1547)، وابن طاهر المقدسي، "معرفة التذكرة " (1078)، وابن حجر العسقلاني، "تهذيب التهذيب" (8/173) (الترجمة رقم 311).

([7]) أخرجه الإمام محمد بن عبد الرحمن بن علي النميري في "الإعلام بفضل الصلاة على النبي ﷺ والسلام" (صـ159) (الحديث رقم 294) من طريق إسحاق بن إبراهيم الصواف، عن عون بن عمارة، عن سكن البرجمي، عن حجاج بن سنان، عن علي بن زيد، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله ﷺ: «الصلاة علي نور على الصراط، فمن صلى علي يوم الجمعة ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عاما».

([8]) أخرجه ابن شاهين في "الترغيب في فضائل الأعمال، وثواب ذلك" (صـ: 14) (الحديث رقم 22)، وفي "الأفراد" [كما في "القول البديع" للسخاوي (صـ: 98)]–ومن طريقه: الديلمي في "مسند الفردوس" –كما في "زهر الفردوس" لابن حجر (5/465) (الحديث رقم 1893)، وابن بشكوال في "القربة" (صـ 147) (الحديث رقم 106)-، والإمام أبو الحسن علي بن عمر الدار قطني في "الأفراد" [كما في "أطراف الغرائب والأفراد" لابن القيسراني طاهر بن محمد المقدسي (5/186) (الحديث رقم 5095)]-ومن طريقه: الديلمي في "مسند الفردوس" [كما في "زهر الفردوس" لابن حجر (5/465) (الحديث رقم 1893)]، وابن حجر في "نتائج الأفكارفي تخريج أحاديث الأذكار" (5/55)- وأبو نعيم الأصبهاني –كما في"نتائج الأفكار في تخريج أحاديث الأذكار" (5/55)- من طريق سعيد بن محمد بن ثواب، عن عون بن عمارة، عن سكن بن إبراهيم البرجمي، عن حجاج بن سنان، عن علي بن زيد، عن ابن المسيب، أظنه عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله ﷺ: «الصلاة علي نور على الصراط، فمن صلى علي يوم الجمعة ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عاما».

([9]) قال ابن الصلاح في "مقدمته = معرفة أنواع علم الحديث" (صـ 193): « المضطرب من الحديث: هو الذي تختلف الرواية فيه فيرويه بعضهم على وجه وبعضهم على وجه آخر مخالف له، وإنما نسميه مضطربا إذا تساوت الروايتان. أما إذا ترجحت إحداهما بحيث لا تقاومها الأخرى بأن يكون راويها أحفظ، أو أكثر صحبة للمروي عنه، أو غير ذلك من وجوه الترجيحات المعتمدة، فالحكم للراجحة، ولا يطلق عليه حينئذ وصف المضطرب ولا له حكمه. ثم قد يقع الاضطراب في متن الحديث، وقد يقع في الإسناد، وقد يقع ذلك من راو واحد، وقد يقع بين رواة له جماعة. والاضطراب موجب ضعف الحديث؛ لإشعاره بأنه لم يضبط، والله أعلم

([10]) أخرجه الإمام أبو القاسم الأزجي في "حديثه عن شيوخه" - مخطوط- (صـ: 8) (الحديث رقم 17).

([11]) هو: أبو النضر منصور بن صقير البغدادي. روى عن: موسى بن أعين، وحماد بن سلمة. وروى عنه: أبو أمية محمد بن إبراهيم الطرسوسي، ومحمد بن غالب المعروف بتمتام. قال أبو حاتم: "ليس بقوي كان جنديا، وفي حديثه اضطراب"، قال العقيلي: "في ‌حديثه ‌بعض ‌الوهم"، وقال ابن حبان: "يروى المقلوبات، لا يجوز الاحتجاج به إذا انفرد". انظر: ابن أبي حاتم، "الجرح والتعديل" (8/172) (الترجمة رقم 761)، وابن حبان، "المجروحين" (3/40)، والعقيلي، "الضعفاء الكبير" (4/192) (الترجمة رقم 1770).

([12]) هو: أبو الحسن علي بن زيد بن عبد الله، ابن جدعان، البصري، مكي الأصل. قال البزار: تكلم فيه شعبة. وقال علي بن المديني: هو ضعيف عندنا. قال أبو حاتم: ليس هو بالقوى. قال يحيى بن معين: ليس بذاك القوي، ‌وقال ‌أبو ‌زرعة ‌الرازي: ‌ضعيف ‌في ‌كل ‌شيء. وفي كتاب ابن الجارود: ليس بشيء. وفي موضع آخر: ليس بحجة. انظر: ابن أبي شيبة، "سؤالات" (صـ 57) (المسألة رقم 21)، وابن معين، "تاريخ"- رواية الدارمي (صـ 141) (الترجمة رقم 472)، وابن أبي حاتم، "الجرح والتعديل" (6/186) (الترجمة رقم 1021)، ومغلطاي، "إكمال تهذيب الكمال" (5/354) (الترجمة رقم ‌‌3957).

([13]) قال الإمام مسلم في "مقدمة صحيحه" (1/7): "فأما ‌من ‌تراه ‌يعمد لمثل الزهري في جلالته وكثرة أصحابه الحفاظ المتقنين لحديثه وحديث غيره، أو لمثل هشام بن عروة، وحديثهما عند أهل العلم مبسوط مشترك. قد نقل أصحابهما عنهما حديثهما على الاتفاق منهم في أكثره. فيروي عنهما أو عن أحدهما العدد من الحديث، مما لا يعرفه أحد من أصحابهما، وليس ممن قد شاركهم في الصحيح مما عندهم، فغير جائز قبول حديث هذا الضرب من الناس".

([14]) قال الأزدي: متروك. وقد ذكر الحافظ ابن حجر في ترجمته هذا الحديث، ووصفه بالنكارة. انظر: الذهبي، "ميزان الاعتدال" (1/463) (الترجمة رقم ‌‌1739)، و"ديوان الضعفاء" (صـ 73)، وابن حجر، "لسان الميزان" (2/563).

([15]) قال الحافظ ابن حجر في "زهر الفردوس" (5/469) (الحديث رقم 1893): «قلت: هو في الأفراد من "الأفراد"، للدارقطني، وقال: انفرد به سعيد، عن عون، وعون عن السكن، والسكن عن الحجاج، والحجاج عن علي بن زيد؛ وكذا أخرجه ابن شاهين في الأفراد، وقال نحو ذلك».

([16]) قال ابن الصلاح في "مقدمته = معرفة أنواع علوم الحديث" (صـ 79): "إذا انفرد الراوي بشيء نظر فيه: فإن كان ما انفرد به مخالفا لما رواه من هو أولى منه بالحفظ لذلك، وأضبط كان ما انفرد به شاذا مردودا، وإن لم تكن فيه مخالفة لما رواه غيره، وإنما هو أمر رواه هو ولم يروه غيره، فينظر في هذا الراوي المنفرد: فإن كان عدلا حافظا موثوقا بإتقانه وضبطه قبل ما انفرد به، ولم يقدح الانفراد فيه، كما فيما سبق من الأمثلة، ‌وإن ‌لم ‌يكن ‌ممن ‌يوثق بحفظه وإتقانه لذلك الذي انفرد به كان انفراده به خارما له، مزحزحا له عن حيز الصحيح. ثم هو بعد ذلك دائر بين مراتب متفاوتة بحسب الحال فيه، فإن كان المنفرد به غير بعيد من درجة الحافظ الضابط المقبول تفرده استحسنا حديثه ذلك، ولم نحطه إلى قبيل الحديث الضعيف، وإن كان بعيدا من ذلك رددنا ما انفرد به، وكان من قبيل الشاذ المنكر".

([17]) طاهر بن محمد المقدسي، "أطراف الغرائب والأفراد" (5/186) (الحديث رقم 5095).

([18]) ابن حجر العسقلاني، "نتائج الأفكار في تخريج أحاديث الأذكار" (5/55)، وعبد الرؤوف المناوي، "فيض القدير" (4/249)

([19]) ابن حجر العسقلاني، "لسان الميزان" (2/178).

([20]) ابن حجر العسقلاني، "نتائج الأفكارفي تخريج أحاديث الأذكار" (5/55).

([21]) أخرجه الدارقطني من رواية ابن المسيب قال: أظنه عن أبي هريرة: وقال: حديث غريب، ‌وقال ‌ابن ‌النعمان: ‌حديث ‌حسن. زين الدين العراقي، "المغني عن حمل الأسفار" (2/49) (الحديث رقم 4).

([22]) السخاوي، "القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع" (صـ 199).

([23]) أخرجه أبو الفتح الأزدي، وضعّفه في "الضعفاء والمتروكين" -كما في "ميزان الاعتدال" للذهبي (2/74) (الترجمة رقم ‌‌2881)- من طريق عون بن عمارة، عن زكريا بن عبد الرحمن ‌البرجمي، عن حجاج، عن علي بن زيد، عن ابن المسيب، عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعًا نحو ما سبق.

([24]) قال الخطيب في "تاريخ بغداد" (3/ 37) (الترجمة رقم 658): وفي حديثه غرائب ومناكير، وكان ‌حافظا، صنف كتبا في علوم الحديث. وسألت محمد بن جعفر بن علان عنه، فذكره بالحفظ وحسن المعرفة بالحديث، وأثنى عليه. فحدثني أبو النجيب عبد الغفار بن عبد الواحد الأرموي قال: رأيت أهل الموصل يوهنون أبا الفتح ‌الأزدي جدا، ولا يعدونه شيئا، قال: وحدثني محمد بن صدقة الموصلي أن أبا الفتح قدم بغداد على الأمير -يعني ابن بويه- فوضع له حديثا: أن جبريل كان ينزل على النبي صلى الله عليه وسلم في صورته. قال: فأجازه وأعطاه دراهم كثيرة. سألت أبا بكر البرقاني، عن أبي الفتح ‌الأزدي، فأشار إلى أنه كان ضعيفا، وقال: رأيته في جامع المدينة، وأصحاب الحديث لا يرفعون به رأسا، ويتجنبونه. قال الحافظ الذهبي في "سير أعلام النبلاء" (16/348) (الترجمة رقم 250): "قلت: وعليه في كتابه في "الضعفاء" مؤاخذات، فإنه ضعَّف جماعة بلا دليل، بل قد يكون غيره قد وثَّقهم".

([25]) راجع: "تهذيب الكمال" للمزي (22/461) (الترجمة رقم 4554)

([26]) قال المعلمي اليماني في حاشية "التاريخ الكبير" للبخاري (4/ 183) (الترجمة رقم ‌‌2417): "أفرده ابن أبي حاتم عن سكن بن أبي السكن الماضي قبل ترجمة وعدهما صاحب التهذيب واحدا، أما ابن حبان فذكر واحدا قال "السكن بن أبي السكن البرجمي واسم أبي السكن سليما (كذا وفي التهذيب عن الثقات سليمان) يروي عن حميد الطويل ويونس بن عبيد روى عنه أزهر بن حميد (الصواب - جميل) والبصريون "هكذا في الطبقة الثالثة وذكر في الرابعة السكن بن سليمان المتقدم قريبا والله أعلم". وقال أيضًا: "في التعجيل ص 157 " السكن بن إبراهيم عن الاشعث بن سوار يروي عنه عبيد الله بن عمر القواريري وعلي بن عبيد الله المديني وغيرهما قال البخاري [ينظر في نسبة إبراهيم] وذكره ابن حبان في "الثقات" أقول: لم أجده في نسختنا من الثقات ولا في كتاب ابن أبي حاتم والله أعلم.

([27]) انظر: ابن حبان "الثقات" (صـ 2)، والمزي، "تهذيب الكمال في أسماء الرجال" (11/ 207) (الترجمة رقم 2421)، وقاسم بن قطلوبغا، "الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة" (5/ 47) (الترجمة رقم 4607).

([28]) قال الدارقطني في "سؤالات السلمي" (ص191) (المسألة رقم 177): ‌السكن ‌بن ‌إسماعيل، ‌والسكن ‌بن ‌نافع، ‌والسكن ‌بن ‌إبراهيم ‌كلهم ‌ثقات.

([29]) أخرجه الخطيب البغدادي في "تاريخ بغداد" (15/636) (الترجمة رقم 7278)، والذهبي في "ميزان الاعتدال" (4/351) (الترجمة رقم ‌‌9427) من طريق وهب بن داود، عن إسماعيل بن إبراهيم، عن عبد العزيز بن صهيب، عن أنس مرفوعًا، نحوه.

([30]) أخرجه أبو الفرج ابن الجوزي في "العلل المتناهية في الأحاديث الواهية" (1/468) من طريق وهب بن داود، بهذا الإسناد، نحوه. وفيه: "من صلى علي يوم الجمعة مائتي غفر الله له ذنوب ثمانين عاما.... الحديث".

([31]) قال الحافظ ابن حجر في "تهذيب التهذيب" (2/499) (الترجمة رقم 3259): "لفظة ليس بثقة في الاصطلاح ‌يوجب ‌الضعف ‌الشديد".

([32]) ابن الجوزي، "العلل المتناهية في الأحاديث الواهية" (1/468) (الحديث رقم 796).

([33]) الذهبي، "المغني في الضعفاء" (2/ 726) (الترجمة رقم 6904).

 ([34]) ملاحظہ فرمائیں : حاشیہ نمبر:7 اور  8  ۔

 ([35]) أخرجه قوام السنة أبو القاسم الأصبهاني في "الترغيب والترهيب" (2/329) (الحديث رقم 1696) عن أبي الحسن علي بن أحمد المؤذن، عن أحمد بن علي الحافظ، عن أبي بكر محمد بن الحسين بن جعفر البخاري عن أبي حسان عيسى بن عبد الله عن محمد بن رزام، به.

([36]) ‌هو: أبو عبد الملك محمد ‌بن ‌رزام البصري السَّلِيْطِي الأَيْلِي أو الأُبُلِّي. قال الدارقطني: ضعيف يحدث بأباطيل. وقال الذهبي: متهم بالكذب. وقال أيضًا: متهم بوضع الحديث، قال الأزدي: ‌ذاهب ‌الحديث تركوه. انظر: الدارقطني، "تعليقات على المجروحين لابن حبان" (صـ 200) (الترجمة رقم ‌‌256)، وابن الجوزي، "الضعفاء والمتروكون" (3/58) (الترجمة رقم 2977)، والذهبي، "ميزان الاعتدال" (3/545)، و"ديوان الضعفاء" (صـ 350) (الترجمة رقم 3704)، وابن حجر، "لسان الميزان" (7/133).

([37]) راجع:"النكت الوفية بما في شرح الألفية" لبرهان الدين البقاعي (1/578).

([38]) قال عبد القاهر الجرجاني في "درج الدرر في تفسير الآي والسور" (2/20):

"فعن أحمد بن حنبل قال: إذا روينا عن رسول الله في الحلال والحرام والسنن والأحكام تشددنا في الأسانيد، وإذا روينا في فضائل الأعمال، وما لا يضع حكما ولا يرفعه ‌تساهلنا ‌في ‌الأسانيد. وأظن أن الإمام أحمد لم يرد بهذه المقولة الأحاديث الضعيفة المتهالكة التي لا تجبر، أو الأحاديث الموضوعة المختلقة على النبي صلى الله عليه وسلم، ولكنه أراد الأحاديث التي يمكن أن تجبر بغيرها سواء بالمتابعة أو الشواهد".

وقال ابن حجر في "تبيين العجب بما ورد في شهر رجب" (صـ 2):

"ولكن اشتهر أن أهل العلم يتسامحون في إيراد الأحاديث في الفضائل وإن كان فيها ضعف، ما لم تكن موضوعة. وينبغي مع ذلك اشتراط أن يعتقد العامل كون ذلك الحديث ضعيفا، وأن لا يشهر بذلك، لئلا يعمل المرء بحديث ضعيف، فيشرع ما ليس بشرع، أو يراه بعض الجهال فيظن أنه سنة صحيحة".

وقال السخاوي في "القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع" (صـ 255):

"وقد سمعت شيخنا مرادا يقول وكتبه لي بخطه أن شرائط العمل بالضعيف ثلاثة، الأول متفق عليه: أن يكون الضعف غير شديد، فيخرج من انفرد من الكذابين والمتهمين بالكذب ومن فحش غلطه، الثاني: أن يكون مندرجا تحت أصل عام، فيخرج ما يخترع بحيث لا يكون له أصل أصلا، الثالث: أن لا يعتقد عند العمل به ثبوته لئلا ينسب إلى النبي صلى الله عليه وسلم ما لم يقله".

محمد انس جمال

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

26   رجب  1446 ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

انس جمال بن جمال الدین

مفتیان

فیصل احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / شہبازعلی صاحب