03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
متعددعمروں میں قصر کرنے کا حکم
86688حج کے احکام ومسائلحج وعمرہ کے فرائض،واجبات کابیان

سوال

بندہ دو مہینے قبل عمرے کے سفر پر گیا تھا ، مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ہر عمرے کے بعد قصر کرتا رہا اور آج تک حلق نہیں کرایا ، آج معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ قصر کے بعد پھر قصر اس وقت جائز ہے جب بال انگلی کے پورے کے برابر یا اس سے بڑے ہوں ورنہ قصر کافی نہیں بلکہ حلق واجب ہے ، تو کیا بندہ پر دم واجب ہوا یا نہیں ؟ اور کتنے دم واجب ہونگے ؟ کیا صدقہ بھی کافی ہوسکتاہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا۔

تنقیح : سائل کی طرف سے وضاحت :کل چھ عمرے کیے ہیں، ہر عمرے میں حلق کی بجائے زیرو مشین لگایا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پہلی مرتبہ عمرہ میں قصر کرنے کے بعد دوسرے عمرے کے حلق کروانے کے وقت اگر ایک پورے کے بقدربال نہ ہوں تو حلق کرنا واجب ہے کیونکہ قصر میں کم از کم  ایک پورے کے برابر بال کاٹنا واجب ہوتا ہے ،اگر  مذکورہ شخص نے چھٹے عمرے کے بعد سے ابھی تک سر نہیں منڈایا،بلکہ مشین لگائی ہے جو قصر کے حکم میں تھی ، تو وہ ابھی تک احرام کی حالت ہی میں ہے حلال نہیں ہوا ،اس پر لازم ہے کہ وہ فورا سر کے بال منڈائے تاکہ احرام کی حالت سے باہر آسکے اور حلال ہوجائے۔

سر منڈانے کا عمل اگر حدود حرم میں کیا جائے تو  ایک دم واجب ہوگا اور اگر حدود حرم سے باہر کیا جائے تو اس صورت میں دو دم واجب ہوں گے ایک دم  حلق  کرائے بغیر اگلے عمرے کے لیے احرام باندھنے کی وجہ سے یعنی جمع بین الاحرامین سمیت تمام جنایات  کی وجہ سے، دوسرا  دم چھٹے عمرے کا حلق حدود حرم سے باہر کروانے کی وجہ سے  واجب ہوگا ۔

کیوں کہ دوسرے عمرے میں حلق کروانا لازم تھالیکن حلق نہ کرانے سے آپ احرام کی حالت سے نہیں نکلے اور اگلے عمرے کے لیے احرام باندھنے کی وجہ سے جمع بین الاحرامین ہوگیا ،اسی طرح یہ سلسلہ چھٹے عمرے تک جاری رہا یعنی چار مرتبہ جمع بین الاحرامین کیا جوکہ ایک جنایت ہےاس کی وجہ سے ایک دم واجب ہوگا ۔

دوسرا دم اس وجہ سے لازم ہے کہ دوسرے عمرے میں حلق نہ کرانے کی وجہ سے ابھی تک احرام کی حالت باقی ہے اور قصر کرنےسےحلال نہیں ہوا،جب کہ دوران احرام جنایت کا ارتکاب ہوگیا ، چنانچہ اس دوران جتنی بھی جنایات کی ہیں ان سب کی وجہ سے ایک دم واجب ہوا، کیونکہ آپ نے دوسرے عمرے میں  قصر کرنے سے رفض احرام کی نیت کی تھی ۔

حوالہ جات

قال العلامة ابن عابدین رحمه الله: قال في اللباب: واعلم أن المحرم إذا نوى رفض الإحرام فجعل يصنع ما يصنعه الحلال من لبس الثياب والتطيب والحلق والجماع وقتل الصيد فإنه لا يخرج بذلك من الإحرام، وعليه أن يعود كما كان محرما، ويجب دم واحد لجميع ما ارتكب ولو كل المحظورات، وإنما يتعدد الجزاء بتعدد الجنايات إذا لم ينو الرفض، ثم نية الرفض إنما تعتبر ممن زعم أنه خرج منه بهذا القصد لجهله مسألة عدم الخروج، وأما من علم أنه لا يخرج منه بهذا القصد فإنها لا تعتبر منه. اهـ. (ردالمحتار:2/553)

قال العلامة ابن عابدین رحمه الله: قوله:( ومن أتى بعمرة إلا الحلق إلخ) قدمنا أن الحكم في الجمع بين العمرتين كالجمع بين الحجتين أي في اللزوم والرفض ووقته مما يتصور في العمرة كما في اللباب. ثم قال: فلو أحرم بعمرة فطاف لها شوطا أو كله أو لم يطف شيئا ثم أحرم بأخرى لزمه رفض الثانية وقضاؤها ودم للرفض؛ ولو طاف وسعى للأولى ولم يبق عليه إلا الحلق فأهل بأخرى لزمته ولا يرفضها وعليه دم الجمع، وإن حلق للأولى قبل الفراغ من الثانية لزمه دم آخر، ولو بعده لا؛ ولو أفسد الأولى أي بأن جامع قبل طوافها فأهل بالثانية رفضها ويمضي في الأولى، ولو نوى رفض الأولى وأن يكون عمله للثانية لم ينفعه وكذا هذا في الحجتين اهـ. (ردالمحتار:2/587)

و فی غنیۃ الناسک :وأما في التراخي بأن أحرم بأخرى بعد أن يفرغ من السعي للأولى قبل الحلق فتلزمه الثانية بإتفاق الثلاثة، ولا يرفُضُها وعليه دمُ الجمع، وإن حَلَق للأولى قبل الفراغ من الثانية لزمه دم آخر اتفاقا، ولو بعده لا، ولو أفسد الأوّل ثم أهل بالثانية رفضها، ويمضى في الأولى ولو نوى رَفْضَ الأولى وأن يكون عمله للثانية لم يَنْفَعُه؛ فإنه لم يكن عمله إلا للأولى، وكذا هذا في الحجتين. (غنیۃ الناسک فی بغیۃ المناسک:372)

قال العلامة ابن عابدین رحمه الله: قوله:( فيلزم الدم) أي لجناية الجمع ولا دم لتأخير الحلق هنا لأنه في العمرة غير موقت بالزمان كما مر إلا إذا حلق قبل الفراغ من الثانية فيلزم دم آخر كما علمته آنفا (قوله لا لحجتين) عطف على العمرتين؛ وقوله فلا يلزم أي دم الجمع، بل يلزم دم التأخير أو التقصير فقط كما مر وقد تبع الشارح في ذلك صاحب البحر حيث قال: وصرح في الهداية بأنه أي الجمع بين إحرامي حجين أو عمرتين بدعة، وأفرط في غاية البيان بقوله إنه حرام لأنه بدعة وهو سهو، لما في المحيط والجمع بين إحرامي الحج لا يكره في ظاهر الرواية لأنه في العمرة إنما كره لأنه يصير جامعا بينهما في الفعل لأنه يؤديهما في سنة واحدة، بخلاف الحج اهـ فلذا فرق المصنف بين الحج والعمرة تبعا للجامع الصغير فإنه أوجب دما واحدا للحج. وقال بعض المشايخ: يجب دم آخر للجمع اتباعا لرواية الأصل وقد علمت أن الفرق بينهما ظاهر الرواية، هذا خلاصة ما في البحر. (ردالمحتار:2/587)

قال العلامة ابن عابدین رحمه الله: ولو طاف وسعى للأولى ولم يبق عليه إلا الحلق فأهل بأخرى لزمته ولا يرفضها وعليه دم الجمع. (ردالمحتار:2/587)

محمد یونس بن امین اللہ 

دارالافتاءجامعۃالرشید،کراچی

26‏ رجب المرجب‏، 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد یونس بن امين اللہ

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب