86830 | نکاح کا بیان | نکاح کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
2016ء میں میرا نکاح کورٹ میں ہوا تھا، جس سے میرے والدین بے خبر تھے ، نکاح سے پہلے میں نے اس لڑکے سے پوچھا تھا کہ آپ کی پہلے شادی تو نہیں ہوئی؟ تو اس نے بولا کہ نہیں، میں کنوارا ہوں، اور یہ بات بار بار پوچھی تھی کہ اس کی پہلے شادی تو نہیں ہوئی؟ مگر لڑکا جھوٹ بولتا رہا، اس پر یقین کر کے میں نے نکاح کر لیا، کیونکہ میں اس وقت طالبہ تھی، نکاح سے پہلے یہ طے ہوا تھا کہ جب میری تعلیم مکمل ہو گی تب اس نکاح کا میرے ماں باپ کو بتائیں گے اور اگر وہ اس نکاح کے لیے راضی نہ ہوئے تو لڑکا مجھے طلاق دے گا، میں پڑھائی کے لیے بیرون ملک چلی گئی ، تب اس کی پہلی بیوی نے میرے ساتھ رابطہ کیا اور بتایا کہ لڑکا پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس نے تم سے سب جھوٹ بولا ہے اور ساتھ شادی کی تصاویر بھی بھیجیں، جس سے مجھے ان کی پہلی شادی کا یقین ہوا، میں نے اس لڑکے سے طلاق کا مطالبہ کیا، اس نے طلاق دینے سے انکار کر دیا، جب میری ماں کو اس نکاح کا پتہ چلا تو انہوں نے بھی لڑکے سے رابطہ کر کے طلاق کا مطالبہ کیا، کیونکہ وہ بھی اس نکاح سے راضی نہیں تھی ، اس نے جواب دیا کہ میں عمر بھر طلاق نہیں دوں گا، اگر کورٹ سے طلاق ملتی ہے تو لے لو۔ اس نکاح کا حق مہر اس لڑکے نے کبھی ادا نہیں کیا، اس نے آج تک مجھے کوئی خرچہ بھی نہیں دیا، لیکن میں نے کبھی مطالبہ بھی نہیں کیا، کیونکہ میرے ماں باپ میرا سارا خرچہ اٹھارہے تھے، میں نے کورٹ میں خلع کا کیس دائر کیا اور اس کیس میں اس لڑکے کی غیر حاضری کی وجہ سے عدالت نے میرے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے خلع کی ڈگری جاری کر دی، اس کے بعد میں نے عدت پوری کی اور بعد میں دوسرا نکاح کر لیا، جس کے کچھ تھوڑے ہی عرصے کے بعد مجھے طلاق مل گئی، پھر میرا تیسر ا نکاح ہوا، جو کہ والدین نے کروایا، اس سے ابھی میری اولاد بھی ہے ، ابھی میرے حالیہ شوہر کو پتہ چلا ہے کہ جو خلع کورٹ میں ہوتا ہے اس میں اگر لڑکا حاضر نہ ہو تو اس میں شک ہوتا ہے سوال یہ ہے کہ ابھی میرا اور میرے موجودہ شوہر کا نکاح جائز ہے یا نہیں ؟
وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ عدالتی خلع لینے کی وجہ یہ تھی کہ وہ لڑکا تعلیم حاصل کرنے سے روکتا تھا، دوسرانان و نفقہ نہیں دیتا تھا، لیکن یہ لڑکی اس کے پاس صرف ایک مہینہ رہی ہے اورنفقہ کا اس نے مطالبہ بھی نہیں کیا۔ باقی لڑکے اور لڑکی کی قوم تقریباً برابر ہے، پیسے کے اعتبار سے اگرچہ لڑکے والے زیاد ہ مالدار نہیں ہیں، مگر لڑکا لیکچر رہے، البتہ لڑ کے کی عمر تیس سال اور لڑکی کی سولہ سال تھی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں چونکہ لڑکے سے بار بار پوچھا گیا تھا کہ کیا اس کی یہ پہلی شادی ہے ؟ اس کے جواب میں لڑکے نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا تھا کہ جی!یہ میری پہلی شادی ہے، اس پر یقین کرتے ہوئے آپ نے اس سے نکاح کیا تھا، جبکہ حقیقت میں لڑکے کی دوسری شادی تھی ، ایسی صورتِ حال میں شرعی حکم یہ ہے کہ اگر لڑکا لڑکی کا کفو یعنی ہمسر اور برابر نہ ہو تولڑکی کے تمام اولیاء کو تنسیخ نکاح کا حق حاصل ہوگا اور اگر لڑکا لڑکی کا کفو یعنی ہمسر ہو تو ایسی صورت میں صرف لڑکی کو فسخ ِنکاح کا حق حاصل ہو گا، اس کی مثال فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یہ لکھی ہے کہ اگر کسی نے عورت سے کہا کہ میں آزاد ہوں یا عربی النسل ہوں اور عورت نے اس کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے اس سے نکاح کر لیا اور پھر وہ شخص غلام یا عجمی نکلا تو عورت کو فسخ نکاح کا حق حاصل ہو گا، اسی طرح اگر کسی نے کہا میں فلاں شخص کا بیٹا ہوں ، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ فلاں شخص کا بیٹا نہیں، بلکہ اس کا بھائی یا چچا ہے، تو عورت کو فسخِ نکاح کا حق حاصل ہو گا اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے یہاں تک بھی منقول ہے کہ اگر وہ شخص بیان کیے گئے وصف میں عورت سے بڑے درجے کا ہو تو بھی عورت کو فسخ نکاح کا اختیار دیا جائے گا، کیونکہ بعض اوقات عورت کے لیے بڑے مرتبےکےآدمی کے ساتھ رہنا مشکل ہو جاتا ہے اور فقہائے کرام رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں فسخ نکاح کی اصل وجہ تغریر سے یعنی لڑکے کا دھوکہ دینا لکھی ہے ، جیسا کہ فتح القدیر ، ردالمحتار اور فتاوی ہندیہ وغیرہ میں تصریح ہے۔
نیز ہمارے اکابر رحمہم اللہ نے بھی اپنے فتاوی میں لڑکے کی طرف سے تغریر یعنی دھوکہ دہی کے پائے جانے کی صورت میں عورت کو فسخِ نکاح کا اختیار دیا ہے، چنانچہ مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
سوال: ایک پٹھان نے اپنی قومیت کو چھپا کر ایک سید کے یہاں پیغام نکاح دیا، نکاح اس بناء پر قرار پایا کہ اگر تم شیخ ہو تو نکاح کیا جائے گا اس صورت میں نکاح درست ہوایانہ ؟
جواب: اس صورت میں نکاح ہو گیا تھا، مگر بوجہ دھو کہ دہی کے عورت اور اس کے اولیاء کو فسخ نکاح کا اختیار ہے۔ فقط (فتاوی دارالعلوم دیوبند:ج:8ص:160)
اسی طرح فتاوی دارالعلوم دیوبند (ج:8ص:169) میں نکاح کے بعد لڑکے کے حرامی ظاہر ہونے پر بھی عورت کو فسخِ نکاح کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے بھی لڑکے کے اپنے آپ کو شیخ انصاری ظاہر کر کے نکاح کرنے اور پھر اس کے خلاف ظاہر ہونے کی صورت میں فسخِ نکاح کا اختیار دیتے ہوئے فرمایا:
صورتِ مسئولہ میں نکاح تو ہو گیا، لیکن چونکہ زید نے ہندہ کو اور اس کے اولیاء کو دھوکہ دیا کہ اپنے آپ کو انصاری ظاہر کیا، یہی سمجھ کر وہ لوگ نکاح پر راضی ہوئے، اس لیے ہندہ کو اور اس کے اولیاء کو نکاح کے فسخ کرانے کا حق حاصل ہے، وہ عدالت میں دعوی کر کے نکاح فسخ کرا سکتے ہیں۔(امدادالاحكام:ج:2،ص:326)
آج کل کے معاشرے میں لڑکے کا کنوارہ ہونا ایک خاص وصف سمجھا جاتا ہے، اس لیے ہمارے عرف میں عام طور پر لوگ اپنی کنواری بیٹی کسی شادی شدہ شخص کو دینے پر تیار نہیں ہوتے، یہاں تک کہ شریعت نے جن چیزوں کو کفو قرار دیا ہے، جیسے دینداری، مالداری، پیشہ اور قوم و غیر و۔ ان میں تو بعض اوقات لوگ صرفِ نظر کر جاتے ہیں، لیکن شادی شدہ لڑکے کے ساتھ اپنی کنواری لڑکی کا نکاح کرنے پر بہت کم تیار ہوتے ہیں، اس لیے آج کل کے عرف کی وجہ سے شرعا اس وصف کا اعتبار کیا جائے گا۔
لہذا مذکورہ صورت میں چونکہ لڑکی کے سامنے لڑکے نے اپنے آپ کو غیر شادی شدہ اور کنوارہ ظاہر کر کے جھوٹ اور غلط بیانی کا ارتکاب کر کے نکاح کیا تھا، اس لیے اس میں تغریر یعنی دھوکہ دہی کا عنصر پایا گیا ، لہذااگر لڑکا لڑکی کا کفو بھی ہو تو بھی لڑکی کو عدالت سے فسخ نکاح کا حق حاصل تھا، لہذا اگر لڑکی نے عدالت میں پیش کیے گئے اپنے دعوی میں یہ بات لکھی تھی کہ لڑکے نے دھوکہ دے کر نکاح کیا تھا اور پھر عدالت میں زبانی یا تحریری گواہوں یا ایک گواہ اور اپنے حلفیہ بیان کے ذریعہ اس بات کو ثابت بھی کر دیا تھا تو اس صورت میں عدالت سے جاری شدہ خلع کا فیصلہ شرعاً درست اور قابلِ عمل تھا اور اس میں خلع کے الفاظ کو تنسیخ نکاح پر محمول کیا جائے گا اور فیصلہ جاری ہونے کی تاریخ سے عورت کی عدت شروع ہو چکی تھی اور عدت مکمل ہونے پر اس کا دوسری جگہ نکاح کرنادرست تھا۔
حوالہ جات
مصنف عبد الرزاق الصنعاني (154/6) المكتب الإسلامي – بيروت:
10330 - عن الثوري قال : " لو أن رجلا أتى قوما، فقال: إني عربي، فتزوج إليهم فوجدوه مولى كان لهم أن يردو انكاحه، وإن قال : أنا مولى فوجدوه نبطيار د النكاح.
فتح القدير (293/3) كتاب النكاح، باب الأولياء والأكفاء، فصل في الكفاءة، ط: دار الفكر):
انتظام المصالح بين المتكافئين عادة، لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشة للخسيس، فلا بد من اعتبارها، بخلاف جانبها، لأن الزوج مستفرش فلا تغيظه دناءة الفراش".
فتح القدير للكمال ابن الهمام (295/3) الناشر: دار الفكر، بيروت:
انتسب إلى غير نسبه لامرأة فتزوجته ثم ظهر خلاف ذلك، فإن لم يكافئها به كقرشية انتسب إلى قريش ثم ظهر أنه عربي غير قرشي فلها الخيار، ولو رضيت كان للأولياء التفريق وإن كافأها به كعربية ليست قرشية انتسب لها إلى قريش فظهر أنه عربي غير قرشي فلا حق للأولياء، ولها هي الخيار عندنا إن شاءت فارقته خلافا لزفر. ولنا أنه شرط لنفسها في النكاح زيادة منفعة وهو أن يكون ابنها صالحا للخلافة، فإذا لم تنل كان لها الخيار، كشراء العبد على أنه كاتب فظهر خلافه. وأيضا الاستفراش ذل في جانبها فقد ترضى به ممن هو أفضل منها لا من مثلها، فإذا ظهر خلافه فقد غرها وتبين عدم رضاها بالعقد فيثبت لها الخيار.
الدر المختار و حاشية ابن عابدين (501/3) دار الفكر – بيروت:
قلت: وأفاد البهنسي أنها لو تزوجته على أنه حر، أو سني، أو قادر على المهر والنفقة فبان بخلافه، أو على أنه فلان بن فلان فإذا هو لقيط، أو ابن زنا كان لها الخيار فليحفظ.
قال ابن عابدين: عن الظهيرية لو انتسب الزوج لها نسبا غير نسبه فإن ظهر دونه وهو ليس بكفء، فحق الفسخ ثابت للكل، وإن كان كفؤا فحق الفسخ لها دون الأولياء، وإن كان ما ظهر فوق ما أخبر فلا فسخ لأحد. وعن الثاني أن لها الفسخ لأنها عسى تعجز عن المقام معه وتمامه هناك، لكن ظهر لي الآن أن ثبوت حق الفسخ لها للتغرير لا لعدم الكفاءة بدليل أنه لو ظهر كفؤا يثبت لها حق الفسخ لأنه غرها، ولا يثبت للأولياء؛ لأن التغرير لم يحصل لهم، وحقهم في الكفاءة، وهي موجودة، وعليه فلا يلزم من ثبوت الخيار لها في هذه المسائل ظهوره غير كفء والله سبحانه أعلم.
البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (137/3) الناشر : دار الكتاب الإسلامي:
وفي الظهيرية ولو انتسب الزوج لها نسبا غير نسبه فإن ظهر دونه وهو ليس بكفء فحق الفسخ ثابت للكل وإن كان كفؤا فحق الفسخ لها دون الأولياء، وإن كان ما ظهر فوق ما أخبر فلا فسخ لأحد وعن أبي يوسف أن لها الفسخ؛ لأنها عسى تعجز عن المقام معه اهـ. وفي الذخيرة إذا تزوج امرأة على أنه فلان بن فلان فإذا هو أخوه أو عمه فلها الخيار.اهـ.
الفتاوى الهندية (293/1) الناشر : دار الفكر، بيروت:
ولو انتسب الزوج لها نسبا غير نسبه فإن ظهر دونه وهو ليس بكفء فحق الفسخ ثابت للكل، وإن كان كفؤا فحق الفسخ لها دون الأولياء، وإن كان ما ظهر فوق ما أخبر فلا فسخ لأحد، كذا في الظهيرية ولو كانت هي التي غرت الزوج وانتسبت إلى غير نسبها لا خيار للزوج وهي امرأته إن شاء أمسكها وإن شاء طلقها.
ولو تزوج امرأة على أنه فلان بن فلان فإذا هو أخوه لأبيه أو عمه لأبيه كان لها حق الفسخ،كذا في فتاوى قاضي خان.
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (9/ 6756) دار الفكر - سوريَّة – دمشق:
إذا اشترطت الكفاءة حين العقد، أوأخبر الزوج أنه كفء، ثم تبين أنه غير كفء كان لكل من الولي والزوجة طلب فسخ العقد.
ويلاحظ أن هذه الأحكام يتفق أغلبها مع مذهب الحنفية، فالمادة الأولى في أن الكفاءة من جانب الرجل لا من جانب المرأة، أو من الجانبين، والثانية لتقرير أن الكفاءة شرط لزوم، لا شرط صحة، والثالثة مراعاة مبنى الكفاءة في الأصل وهو العرف، والرابعة كون الكفاءة حقا لكل من المرأة والولي، والخامسة تحديد وقت سقوط حق الكفاءة عملا بمشهور مذهب الحنفية، والسادسة وقت مراعاة الكفاءة وهو عند العقد، لا بعده، والسابعة التغرير بالكفاءة عند الاشتراط أو الإخبار بها
محمد نعمان خالد
دادالافتاء جامعة الرشیدکراچی
6/شعبان المعظم 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |