03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ای ایف یو/EFU انشورنس کمپنی میں کام کرنے کا حکم
86680سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

ای ایف یو انشورنس کمپنی  نے ہمیں اپنی ایک کتاب دی ،جس میں ان کی  تمام تفصیلات درج تھیں۔ اس کتاب میں انہوں نے مدارس سے فتویٰ لیا تھا، جس کے مطابق  یہ کمپنی (جس کا نام ای ایف یو ہے) جائز  اور اسلامی قوانین کےمطابق چلتی ہے۔ کیا ایسی انشورنس کمپنی میں نوکری کرنا جائز ہوگا؟ اس کی کمائی حلال ہوگی یا حرام؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ای ایف یو / EFU انشورنس کمپنی ہے جو روایتی طریقے سے مختلف قسم کی انشورنس پالیسیاں جاری کرتی ہے۔یہ پالیسیاں چونکہ سوداور غرر  پر مشتمل ہوتی ہیں ،لہذا ایسی کوئی بھی پالیسی لینا اور انشورنس کروانا خلاف شرع معاملہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔انشورنس کمپنی میں کام کرنے کے حوالے سے تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ کام یا ملازمت براہ راست انشورنس کے معاملات(جیسےانشورنس ایجنٹ یا انویسٹمنٹ مینیجربننا،یا سیلر ریپریزنٹیٹو ،یا کمپنی کا قانونی مشیر بننا وغیرہ) سے تعلق رکھتا ہو تو ناجائز ہے ۔اگر براہ راست انشورنس کے معاملات سے متعلق نہ ہو(جیسے مشینی آلات  کی آپریٹنگ کرنا ،چوکیداری کرنا اور کمپنی کا ڈرائیور بننا وغیرہ )  جائز توہے ،لیکن ایسی ملازمت سے بھی احتیاط کرنا بہتر ہے۔

البتہEFU نے "حمایۃ" کے نام سے تکافل ونڈو کھولی ہوئی ہے ۔تکافل کے حوالے سے ہمارے دارالافتاء سے ابھی تک جواز کا فتوی جاری نہیں ہوا  ۔ EFU سمیت جو کمپنیاں تکافل کررہی ہیں وہ دارالعلوم کراچی کے فتوی کی بنیاد پر کام کرتی ہیں، لہذا مزید تفصیلات کے لیے ان سے رجوع کیاجاسکتا ہے۔

حوالہ جات

صحيح مسلم للنيسابوري (5/ 50):

عن عبد الله قال لعن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- آكل الربا ومؤكله. قال قلت وكاتبه وشاهديه،قال إنما نحدث بما سمعنا.

فقہ البیوع(2/1065):

أما إذا كانت الوظيفة ليس لها علاقة مباشرة بالعمليات الربوية، مثل وظيفة الحارس أو سائق السيارة، أو العامل على الهاتف أو الموظف المسئول عن صيانة البناء، أو المعدات أو الكهرباء، أو الموظف الذى يتمحض عمله في الخدمات المصرفية المباحة، مثل تحويل المبالغ، والصرف العاجل للعملات، وإصدار الشيك المصرفي،أو حفظ مستندات الشحن أو تحويلها من بلد إلى بلد، فلا يحرم قبولها إن لم يكن بنية الإعانة على العمليات المحرمة، وإن كان الاجتناب عنها أولى، ولا يُحكم في راتبه بالحرمة، لما ذكرنا من التفصيل فى الإعانة والتسبب، وفى كون مال البنك مختلطاً بالحلال والحرام. ويجوز التعامل مع مثل هؤلاء الموظفين هبة أو بيعاً أو شراء.

فقه البيوع(1068/2):

وأما قبول الوظيفة فيها،فحكمه  و حكم التعامل مع الموظفين  فيها مثل حكم الوظائف في البنوك الربوية.

محمد اسامہ فاروق

دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی

28/ رجب 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اسامہ فاروق بن محمد طاہر فاروق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب