03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی اور شوہر کے درمیان طلاق معلق کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو طلاق کاکیا حکم ہے؟
86825طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان اس مسئلہ  کے بارے میں کہ  بیوی کہتی ہے کہ میرا شوہر باہر ملک میں کام کرتا ہے۔اس دن شوہر کی بہن بھی میرے شوہر کے ساتھ تھی ،میں نے کیڑوں والی روٹی خود بھی کھائی تھی اور بچوں کو بھی کھلائی تھی،  تو میں اس کی بہن کے ساتھ فون پر یہی بات کر رہی تھی کہ  مجھے خاوند نے فون پر کہا، جو مجھے سنائی دیا کہ اگر تو نے میرے بچوں پر کیڑوں والی روٹی کھلائی  ہے تو (طلاق دیرغے)یعنی طلاق دی ہے کئی  مرتبہ کہا۔ 
شوہر کا بیان ہے کہ میں  نے بیوی کو کہا کہ تم بچوں کو کیڑوں والی روٹی کھلاتی ہو ۔اگر سیدھی  نہیں ہوتی ہو تو طلاق دیرغے کئی مرتبہ کہا۔ جب میں یہ الفاظ ادا کر رہا تھا، اس وقت میری بہن نے میرے  منہ پر ہاتھ رکھنا چاہا، جس کی وجہ سے موبائل گر گیا۔ شاید اس وجہ سے میری بیوی کو پوری بات سنائی نہیں دی ہے، اس بات پر میری بہن گواہ ہے ۔نہ میں نے طلاق کا ارادہ کیا ہے اور نہ ہی  طلاق دی ہے ،بلکہ میں بیوی کو طلاق سے ڈرا رہا تھا اور میں اس پر قسم بھی کھاتا ہوں۔
 مفتی صاحب!  قرآن وسنت اور فقہاء کرام کی رو سے یہ طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟ جب کہ ریکارڈ میں نہ تو بیوی کی پوری بات ہے اور نہ ہی  شوہر کی بات ۔بیوی طلاق کا دعویٰ کرتی ہے اور شوہر طلاق کا منکر ہے اور شوہر کی بہن کے علاوہ کسی نے سنا بھی نہیں ہے۔شرعی رو سے رہنمائی فرمائیں !
تنقیح: سائل سے فون پر بات ہوئی انہوں نے بتایا کہ آٹے میں کیڑےتھے،اس آٹے کو چھانے بغیر اس کی روٹی پکا کر بچوں کو کھلادی اور بیوی یقین کے ساتھ کہتی ہے کہ شوہر نےکہا کہ اگر تو نے میرے بچوں کو کیڑوں والی روٹی کھلائی ہے تو طلاق دیرغے،یہ کئی مرتبہ کہا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر بیوی کو شوہر کی وضاحت کے بعد اطمینان ہو کہ شوہر سچ بول رہا ہےتو طلاق نہیں ہوئی اور اگر اسے خود سنی ہوئی  بات کا یقین ہواور شوہر کی وضاحت پر اعتماد نہیں اور تین دفعہ طلاق کے الفاظ کہے ہوں توایسی صورت میں شوہر کی بات کا اعتبار نہیں کرے گی۔ اگر خدانخواستہ دوسری صورت ہو تو شوہر کو چاہیے کہ وہ باضابطہ طلاق دے کر اسے جدا کر دے، کیوں کہ ایسی صورت میں بیوی کےلیے ازدواجی تعلق رکھنا جائز نہ ہوگا۔

حوالہ جات

 في الهندية: والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو شهد به شاهد عدل عندها.(الفتاوى  الهندية: 2/365)
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى : والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله. (رد المحتار :251/3)
وفيه: والمرأة تعلم أن الأمر كما قالت لا يسعها المقام معه، ولا أن تأخذ من ميراثه شيئا …… وفي الخلاصة ولا يحل وطؤها إجماعا بحر. (رد المحتار : 433/4)

واجد علی
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
29/رجب6144ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

واجد علی بن عنایت اللہ

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب