86085 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام کے- الیکٹرک کی بلنگ کےدرج ذیل سوالات کےبارےمیں:
1۔ 200 یونٹ سےکم استعمال پرریٹ ایک گنااور200یونٹ سےایک بھی یونٹ اضافہ استعمال پرصارفین سےتین گنازیادہ ریٹ وصول کرنا کیسا ہے؟ نیزاگر 200 یونٹ تک ایک بار بھی بل آجائےدوبارہ چاہے 200 یونٹ سےکم بھی آجائےپھر بھی 6 ماہ تک وہی تین گنا زیادہ ریٹ پربلنگ کی جاتی ہےتو کیاشریعت اس کی اجازت دیتی ہے؟
2۔ ہرماہ بل کےپشت پرمختلف قسم کےٹیکسزلکھےہوئےہوتےہیں، جن کا کوئی پتہ نہیں چلتاکہ کس مدمیں لاگوکیےہیں۔ اگر بل کی لاگت یونٹ کےحساب سے500ہےتومختلف قسم کےٹیکسز، مثلًا: فیول ایڈجسٹمنٹFuel Adjustment،کواٹرلی ایڈجسٹمنٹQuarterly Adjustment، یونیفارم کواٹرلی ایڈجسٹمنٹUniform Quarterly Adjustment، سیلز ٹیکسSales Tax،ٹی وی لائسنس فیسTV License Feeوغیرہ بےتحاشاٹیکسزکی وجہ سےاصل بل دگناہو جاتاہےتوکیااس طرح عوام سےدگنی رقم وصول کرناجائزہے؟
3۔ ہرماہ کے بل میں مقررہ تاریخ پربل نہ بھرنےپرجرمانہ لاگوکرکےاگلےبل میں شامل کرکےوصول کرنے کاکیاحکم ہے؟
4۔ K.Eکےان اقدامات پرحکومت کی خاموشی اوراس سسٹم میں K.Eکےساتھ معاونت پرعوام کےلیےشرعی راستہ تجویز فرماکرممنون فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
1۔ کے-الیکٹرک نے اپنی بجلی صارفین کو فروخت کرنے کے لیے یہ طریقہ کاراپنایا ہے کہ جو صارفین مقررہ مدت میں 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کریں، انہیں خاص رعایت دی جاتی ہے۔ لیکن اگر یہ حد عبور ہو جائے تو 200 یونٹ سے زائد استعمال پر پانچ یا چھ ماہ کے لیے اضافی نرخ کے ساتھ بلنگ کی جاتی ہے۔ چونکہ بجلی روزمرہ زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے، جس کوترک کرنےمیں واضح حرج ہے۔ اس لیےیک طرفہ طورپر غیرمعقول اضافے کے ساتھ بلنگ کرناعوام کااستحصال ہے، خاص طورپرجبکہ یونٹ کی ریڈنگ تاخیرسےکرکے200یونٹ کی حدتک پہنچانابھی کمپنی کےلیےممکن ہے، لہذا کوئی معقول بلنگ فارمولہ طے کرناچاہیے۔
2۔حکومت کو ملک چلانےکےلیےمختلف انتظامی امور، مثلًا: سڑکوں، پلوں،نہروں وغیرہ کی تعمیر،سرحدات کی حفاظت، تعلیمی اداروں کےانتظام اوردیگرترقیاتی کاموں کےاخراجات پوراکرنےکےلیےوسائل کی ضرورت پڑتی ہے، جنہیں وہ لوگوں سےٹیکسز کی شکل میں مہیاکرتے ہیں، لہذا عوام کی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ اس میں حکومت کاساتھ دیں۔البتہ حکومت کاٹیکس کوضرورت زندگی سےجوڑنااچھااقدام نہیں۔ نیزعوام کی قدرت سےزیادہ یاظالمانہ اوربےجاٹیکسزلاگوکرناناجائزاورگناہ ہے، جس سے احتراز ضروری ہے۔نیزٹیکس کی رقم کوملک کےصحیح مصرف میں لگانابھی ضروری ہے۔
3۔فقہ حنفی کےراجح قول کےمطابق کسی شخص پرمالی جرمانہ عائد کرنا ناجائزاورگناہ ہے، لہذا”کے-الیکٹرک“ کاصارفین پرجرمانہ لاگوکرناجائزنہیں، اس سے احتراز کرناضروری ہے۔
4۔ اگر K.Eکاعوام کےساتھ واقعتًا رویہ غیرمنصفانہ ہوتوعوام کوشرعًایہ حق حاصل ہےکہ وہ اس کےخلاف عدالت میں مقدمہ دائرکریں، جبکہ حکومت کی شرعی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ فوری طورپراس کاسدباب کرے، ایسی صورت میں حکومت کاK.E کےاستحصال پرخاموش رہناناجائزاورسخت گناہ ہوگا۔
حوالہ جات
قال العلامة الزيلعي رحمه الله تعالى: وقال عليه الصلاة والسلام «المسلمون على شروطهم إلا شرطا أحل حراما أو حرم حلالا» وهذه الشروط تحرم الحلال كالتزوج والمسافرة بها والتسري ونحو ذلك فكانت مردودة. (تبيين الحقائق: 2/ 149)
وقال جمع من العلماء رحمهم الله تعالى: وإما أن كان شرطا لا يقتضيه العقد على التفسير الذي قلنا إلا أنه يلائم ذلك العقد ونعني به أنه يؤكد موجب العقد. ( الفتاوى الهندية: 3/ 133)
وقال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى:قوله: (بيع المضطر وشراؤه فاسد) هو أن يضطر الرجل إلى طعام أو شراب أو لباس أو غيرها ولا يبيعها البائع إلا بأكثر من ثمنها بكثير، وكذلك في الشراء منه كذا في المنح. اهـ. (رد المحتار: 5/ 59)
وقال العلامة محمد تقي العثماني: بيع المضطر يختلف حكمه باختلاف نوع الاضطرار حسبما يأتي: (ألف) أن يكون الاضطرار بسبب إكراه من غيره، فهو داخل في بيع المكره حسبما ذكر في الفقرة (ب) أن يضطر الرجل إلى شراء شيئ أو بيعه في حالة مخمصة يخاف فيها على نفسه أو عياله إن لم يعقد البيع، مثل أن يكون جائعا، ولاسبيل اله إلى الطعام إلا بأن يشتريه بثمن أكثر، أو بأن يبيع بعض ماله بثمن أقل بكثير من ثمن مثله، وإنما يفعله لدفع جوعه أو جوع عياله. وفي هذه الحالة إن باع أو اشترى بثمن المثل، فالبيع صحيح، وإن كان بغين فاحش، فالبيع فاسد. ولكن في صورة الشراء في هذه الحالة، يحل له تناول ما اشتراه لدفع حاجته، ولكن لا يجب عليه إلا ثم المثل (ج) أن يحتاج المرة إلى البيع بسبب إفلاسه أو مطالبة دائنيه. وليس داخلا في الاضطرار بالمعنى المصطلح، فالبيع الذي عقده صحيح، ولوكان بغين، ولكن يكره لمن يتعامل معه أن يغبنه في مثل هذه الحالة. (فقه البيوع: 1/ 479)
وقال العلامة السرخسي رحمه الله تعالى: وقد روي أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه أراد أن يستعمل أنس بن مالك - رحمه الله تعالى - على هذا العمل، فقال له أتستعملني على المكس من عملك، فقال: ألا ترضى أن أقلدك ما قلدنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي روي من ذم العشار محمول على من يأخذ مال الناس ظلما كما هو في زماننا دون من يأخذ ما هو حق وهو الصدقة. (المبسوط: 2/ 199)
وقال العلامة ابن نجيم رحمه الله تعالى: وفي الشريعة ما ذكره المصنف - رحمه الله تعالى - بقوله (هو مبادلة المال بالمال بالتراضي). (البحر الرائق: 5/ 277)
وأخرج الإمام أحمد رحمه الله تعالى في" مسنده" من حديث أبي حميد الساعدي رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه وذلك لما حرم الله مال المسلم على المسلم». (مسند أحمد (39/ 19: 23605)
وقال العلامة ابن نجيم رحمه الله تعالى: تصرف الإمام على الرعية منوط بالمصلحة، وقد صرحوا به في مواضع. (الأشباه والنظائر ص: 104)
وقال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالى: والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال.(رد المحتار:4/62 (
راز محمد بن اخترمحمد
دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
29 جمادی الاخری 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | رازمحمدولداخترمحمد | مفتیان | فیصل احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / شہبازعلی صاحب |