86714 | حدیث سے متعلق مسائل کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
کیا یہ روایت صحیح ہے کہ جب حضور اقدس ﷺ کے وصال کا وقت قریب آیا تو حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لاکرآپﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، حضور اقدس ﷺ نے اُن سے پوچھا کہ کیا میری امت کو بھی موت کے وقت ایسی تکلیف ہوگی جیسی کہ مجھے ہورہی ہے؟ تو حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ جی! اس سے بھی زیادہ تکلیف ہوگی۔ یہ سن کر حضور اقدس ﷺ کی مبارک آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے عرض کردیجیے کہ میری امت کی موت کی تکلیف بھی مجھے ہی دے دیں، تاکہ میری امت کو موت کے وقت کوئی تکلیف نہ پہنچے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
انسان پرموت کے وقت کی سختیاں توصحیح احادیث سے ثابت ہیں، لیکن سوال میں ذکرکی گئی بات یعنی رسول اللہﷺکاجبریل امین سےیہ کہناکہ میری امت کی موت کی سکرات کی تکلیف مجھےدےدو، اس روایت کی کوئی اصل نہیں، ذخیرہ حدیث میں کہیں اس کاذکرنہیں ملتا، علاوہ ازیں اس کےالفاظ میں بھی نکارت میں پائی جاتی ہے، جس سےاس کےمنگھڑت ہونے کی طرف اشارہ ہوتاہے، لہذا رسول اللہﷺ کی طرف اس کی نسبت کرنا گناہ ہے، جس سےاحتراز ضروری ہے۔
حوالہ جات
أخرج الإمام البخاري في "صحيحه"من حديث عائشة رضي الله عنها كانت تقول: "إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان بين يديه ركوة أو علبة فيها ماء، يشك عمر، فجعل يدخل يديه في الماء فيمسح بهما وجهه ويقول: لا إله إلا الله إن للموت سكرات. ثم نصب يده فجعل يقول: في الرفيق الأعلى. حتى قبض ومالت يده". (8/107، الحديث رقم: 6510)
وأخرج الإمام الترمذي في "الجامع" من حديث عائشة رضي الله تعالى عنها، قالت: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالموت، وعنده قدح فيه ماء، وهو يدخل يده في القدح، ثم يمسح وجهه بالماء، ثم يقول: «اللهم أعني على غمرات الموت أو سكرات الموت»: هذا حديث غريب. (3/ 299، الحديث رقم: 978)
وأخرج الإمام البخاري في "صحيحه"، والإمام مسلم في "مقدمة صحيحه" من حديث المغيرة بن شعبة رضي الله عنه قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن كذبا علي ليس ككذب على أحد، من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار». (صحيح البخاري: 2/ 80، الحديث رقم: 1291)، (مقدمة صحيح مسلم: 1/8)
راز محمد بن اخترمحمد
دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
28رجب الخیر1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | رازمحمدولداخترمحمد | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |