03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالتی خلع یا تنسیخ نکاح کا معتبر طریقہ کار اور اس کا حکم
86762طلاق کے احکاموہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے

سوال

میری شادی 2012 عیسوی میں ہوئی تھی،میرے والدین کا انتقال ہوچکا تھا،والدہ کی وفات کے بعد میں نے ملازمت اختیار کرلی تھی ،وہاں کی باس(boss) نے میری شادی کا پیغام دیا،وہ لوگ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے،میرے شوہر کی مجھ سے دوسری شادی تھی،پہلی بیوی رقاصہ) bar dancer (تھی،بقول شوہر کے وہ صحیح راہ پر نہ آسکی،اس لیے اسے چھوڑ دیا،یہ بات مجھے میرے شوہر نے شادی کے بعد بتائی۔سسرال والوں نے بتایا تھا کہ دونوں کی بن نہیں سکی تھی۔پہلی شادی سے کوئی اولاد نہیں،سسرال دبئی میں رہتا تھا،شادی میں صرف دو دن رہے پھر واپس چلے گئے،میں اپنے کاغذات بنوانے دبئی گئی،کچھ ہی عرصے میں معلوم ہوا کہ میرے شوہر شراب پیتے ہیں،اور دوسری برائیوں میں بھی مبتلاء ہیں،سسرال والوں کو اس بارے میں معلوم تھا۔سسرال کی طرف سے مجھے کہا گیا کہ ہم پر بہت قرضے ہیں لہٰذا آپ کو ملازمت کرنی ہوگی،میں نے اپنی آٹھ ماہ کی بچی کے ساتھ ملازمت کرنا شروع کردی،پھر سسرال کی طرف سے کہاگیا کہ تنخواہ کم ہے،آپ ڈرائیونگ سیکھیے،بہر حال اس دوران میرے شوہر نے مزید قرضے لیےاور وہ اس پوری مدت میں شراب نوشی اور دیگر برائیوں میں مزید آگے بڑھتے چلے گئے،ہمارے ازدواجی تعلقات ختم ہوچکے تھے،میرے اصرار پر شوہر نے بتایا کہ ان پر جادو ہے،جس کی وجہ سے وہ ازدواجی تعلقات قائم نہیں کرسکتے۔بیٹی کو اسکول میں داخل کرنا تھا اس لیے میں کراچی آگئی،یہاں دوبارہ ملازمت شروع کردی ،اور بیٹی کو اسکول میں داخل کروادیا ،بیٹی کے داخلے کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی مالی مدد، سسرال یا شوہر نے نہیں کی۔کچھ عرصے بعد شوہر کراچی ملنے کے لیے آئے،ان کا پاسپورٹ ایکسپائر ہوچکا تھا،اس وجہ سے ان کی نوکری چلی گئی اور جیل ہوگئی۔ساس سسر واپس کراچی آگئے،میں نے اپنا سونا بیچ کر شوہر کو رہائی دلوائی،سسر کو ہارٹ اٹیک ہوا تو میں نے اپنے شوہر کوسسر کے علاج کے لیے پیسے دیے،گاڑی کے ٹائر تبدیل کروانے کے لیے بھی وہ مجھ سے پیسے لے کر گئے۔رہائی کے بعد کراچی آگئے،پھر کچھ دن بعد مجھے بھی ساتھ رہنے کے لیے لے گئے،کچھ عرصے بعد میری طبیعت خراب رہنے لگی ،اس لیے میں نے ملازمت چھوڑ دی،اس کے بعد بھی کئی مرتبہ مجھے ملازمت کرنے پر مجبور کیا گیا،دبئی سے واپس آنے کے بعد شوہر نے ایک جگہ ملازمت شروع کی اور دو دن کے بعد چھوڑ دی،پھر فرنچ فرائز  کا کیبن لگایا اور وہ کام بھی چھوڑ دیا،گھر کا خرچ دیور دبئی سے بھیجتا تھا،اور اس پر کئی مرتبہ طعنے دیے جاتے۔اس دوران شوہر کو ان کا ایک دوست جو آٹھ سال سے روڈ پر رہتا تھااور ہیروئن پیتا تھا،ملا،میرے شوہر اسے گھر لے آئے،اس کے ساتھ مل کر گھر میں میرے شوہر نے بھی ہیروئن پینی شروع کردی،میرے شوہر کا یہ ہیروئنچی دوست چوبیس گھنٹے ہمارے گھر میں رہتا تھا،اس دوران میرے دو آپریشن بھی ہوئےاور طبیعت کافی خراب رہنے لگی،میں نے کئی دفعہ اپنے شوہر سے درخواست کی اسے گھر سے باہر نکال دیں ،وہ کہتے کہ یہ گھر سے نہیں جائے گا،تمہیں جانا ہے تو چلی جاؤ،میں ملازمت کرنے لگی،پھر ساس سسر دبئی جانے لگے تو میں نے سوال کیا کہ میری بیٹی کا کیا ہوگا؟میں ایک نشئی شخص کے حوالے اسے نہیں کرسکتی،بہر حال میں اپنی والدہ کے گھر آگئی،میرے شوہر یہاں بھی کئی مرتبہ آئے،مجھ سے پیسے بھی لیتے تھے اور گھر میں بیٹھ کر نشہ بھی کرتے ،کئی کئی دن غائب ہوجاتے،پھر تقریباً نو ماہ گزرنے کے بعد میں نے خلع کی درخواست دی،اس سے پہلے بھائی کے ساتھ شوہر کے پاس گئی اور طلاق کا کہا تو انہوں نے بیٹی کی شرط رکھ دی ،ایک سال تک کیس عدالت میں چلتا رہا،وہ کسی بھی پیشی پر حاضر نہیں ہوئےاور اس کے بعد سے ان سے کوئی رابطہ بھی نہیں ہے،ان تمام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت سے جو خلع  میں نے لی ہے ،اس کاشرعی حکم واضح فرماکر فتوی دے دیں۔

تنقیحات:

  1. والدہ کے گھر واپس آنے سے پہلے، جب تک شوہر کے گھر میں شوہر کے پاس رہتی تھی ،اس وقت بھی شوہر نان نفقہ ادا نہیں کرتے تھے۔
  2. ابتدائی کچھ عرصہ شوہر نے ازدواجی حقوق ادا کیے اور پھر چھوڑدیے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگر مدعیہ خاتون کی طرف سے  شوہر کے نان ونفقہ نہ دینےپر، ثبوت کے لیے عدالت میں دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی زبانی یا تحریری گواہی ثبوت کے طور پر پیش کی گئی تھی یا ایک گواہ کے ساتھ مدعیہ سے حلفیہ بیان لیا گیا ہو اور عدالت نے اس ثبوت کی بنیاد پرفریقین کے درمیان فسخِ نکاح (خلع کی بنیاد پر کیا گیا فیصلہ بھی فسخ کے حکم میں ہو گا) کا فیصلہ کیا ہوتو اس صورت میں عدالت کا یہ فیصلہ شرعاً معتبر اور نافذ ہے اور فریقین کے درمیان نکاح ختم ہو چکا ہے، لہذا فیصلہ جاری ہونے کی تاریخ سے عورت کی عدت شروع ہو چکی ہے، عدت مکمل ہونے کے بعد وہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے،لیکن اگرمدعیہ نے اپنا دعوی عدالت میں مذکورہ بالا طریقے پر شرعی گواہوں سے ثابت نہ کیا ہو تو اس صورت میں اس عدالتی فیصلے کی شرعاً کوئی  حیثیت نہیں، خاتون کو چاہیے کہ اس عدالت یا کسی دوسری عدالت میں اپنا مذکورہ دعوی شرعی گواہوں سے ثابت کرےاور عدالت کے فیصلہ کرنے سے پہلے نان ونفقہ نہ دینے پر گواہ ضرور پیش کریں)یہ گواہ ایسے ہوں جن کو مدعیہ کی مذکورہ صورتِ حال کا علم ہو، یا ہر ایک گواہ کو کم از کم دو افراد نے نان ونفقہ نہ دینے کی صورتِ حال سے آگاہ کیا ہوتو یہ عدالت میں گواہی دے سکتے ہیں(،اگرچہ عدالت گواہوں کا مطالبہ نہ کرے، کیونکہ عام طور پر پاکستان میں عدالت کی طرف سے خلع کے مسائل میں مدعیہ سے گواہوں کا مطالبہ نہیں کیا جاتا، جبکہ شرعا مدعی علیہ(جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو) موجود نہ ہونے کی صورت میں گواہ پیش کرنا ضروری ہے اور پھراس گواہی کی بنیاد پر، اگر عدالت فسخِ نکاح کی ڈگری جاری کر دے تو ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے مذہب کے مطابق نکاح ختم ہو جائے گا اور فیصلہ جاری ہونے کی تاریخ سے عورت کی عدت شروع ہو جائے گی اور وہ عدت مکمل کرکے دوسری جگہ نکاح کرنے میں شرعاً آزاد ہو گی۔

البتہ اگر یقین ہوکہ عدالت مذکورہ شرعی طریقے کے مطابق عدالتی کارروائی نہیں کرے گی اورکسی بھی صورت میں عورت شخصِ مذکور کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تومالکیہ کے مسلک کے مطابق جماعت المسلمین کے ذریعے فیصلہ کروا لیا جائے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ علاقے کے چار پانچ سمجھدار اور دیندار لوگوں کو جمع کیا جائے، ان میں ایک یا دو عالم بھی ہوں،ان کے سامنے عورت خود یا اس کا وکیل تنسیخ نکاح  کے لیےدعوی پیش کرےاورشوہر کےنان ونفقہ نہ دینے پر پہلے ذکر کیے گئے طریقے کے مطابق گواہ  پیش کرے،اور پھراس گواہی کی بنیاد پر، اگر جماعت المسلمین تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کر دے تو ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کے مذہب کے مطابق نکاح ختم ہو جائے گا اور فیصلہ جاری ہونے کی تاریخ سے عورت کی عدت شروع ہو جائے گی اور وہ عدت مکمل کرکے دوسری جگہ نکاح کرنے میں شرعاً آزاد ہو گی۔

حوالہ جات

(الحیلۃ الناجزۃ،الروایۃ الثالثۃ والعشرون،ص:150)

"وأما المتعنت الممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمير مانصه:إن منعها نفقة الحال فلها نفقة القيام فإن لم يثبت عسره أنفق أو طلق وإلا طلق عليه.قال محشيه قوله:وإلا طلق أي طلق عليه الحاكم من غير تلوم إلي أن قال:وإن تطوع بالنفقة قريب أوأجنبي فقال ابن القاسم لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها.وقال ابن عبدالرحمن لا مقال لها لأن سبب الفراق هو عدم النفقة قد انتهي وهو الذي تقضيه المدونة كما قال ابن المناصف۔"

المختصر الفقهي لابن عرفة (4/ 103) محمد بن محمد ابن عرفة المالكي، أبو عبد الله (المتوفى: 803 ھ) مؤسسة خلف أحمد الخبتور للأعمال الخيرية:

وخامسها لا يجوز في ضرب الزوج سماع النساء إلا معه رجال، للمتيطي عن ابن القاسم: لا يجوز في غير النكاح والنسب والموت وولاية القضاة، والمتيطي عن ظاهر قول ابن القاسم في الموازية وحسين بن عاصم عنه وسماع ابن وهب، وعلى المشهور في رجوع المرأة بخلعها بشهادة رجلين بالسماع۔

مجلة الأحكام العدلية (ص: 372) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:

المادة (1831) إذا حضر المدعى عليه بالذات إلى مجلس الحكم بعد إقامة البينة في مواجهة وكيله فللقاضي أن يحكم بتلك البينة على المدعى عليه وبالعكس إذا حضر وكيل المدعى عليه المجلس بعد إقامة البينة في مواجهة المدعى عليه فللقاضي أن يحكم بتلك البينة على الوكيل.

مجلة الأحكام العدلية (ص: 352) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:

الفصل الأول في بيان الحجج الخطية:

المادة (1736) لا يعمل بالخط والخاتم فقط أما إذا كان سالما من شبهة التزوير والتصنيع فيكون معمولا به أي يكون مدارا للحكم ولا يحتاج للإثبات بوجه آخر.

بداية المجتهد ونهاية المقتصد (4/ 252) دار الحديث – القاهرة:

وأما ثبوت الحق على المدعى عليه بنكوله فإن الفقهاء أيضا اختلفوا في ذلك، فقال مالك، والشافعي وفقهاء أهل الحجاز وطائفة من العراقيين: إذا نكل المدعى عليه لم يجب للمدعي شيء بنفس النكول، إلا أن يحلف المدعي أو يكون له شاهد واحد........... ومن حجة مالك أن الحقوق عنده إنما تثبت بشيئين: إما بيمين وشاهد، وإما بنكول وشاهد، وإما بنكول ويمين.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (5/ 414) دار الفكر-بيروت:

(قوله: ولو قضى على غائب إلخ) أي قضى من يرى جوازه كشافعي لإجماع الحنفية على أنه لا يقضى على غائب كما ذكره الصدر الشهيد في شرح أدب القضاء، كذا حققه في البحر. والحاصل: أنه لا خلاف عندنا في عدم جواز القضاء على الغائب. وإنما الخلاف في أنه لو قضى به من يرى جوازه هل ينفذ بدون تنفيذ أو لا بد من إمضاء قاض آخر.

منح الجليل شرح على مختصر سيد خليل (8/ 371) دار الفكر،بيروت:

 ولما أفاد أن القاضي يحكم على الغائب وكانت الغيبة ثلاثة أقسام قريبة وبعيدة ومتوسطة ذكرها على هذا الترتيب فقال و الغائب القريب الغيبة كثلاثة أيام مع أمن الطريق كالحاضر في سماع الدعوى عليه والبينة ۔ ابن الماجشون العمل عندنا أن تسمع الدعوى والبينة حضر الخصم أو لم يحضرفإن كان له مدفع وإلا قضى عليه في كل شيء بعد الإرسال إليه وإعلامه بمن قام عليه دعواه وما ثبت عليه وتسمية الشهود.

شرح مختصر خليل للخرشي (4/ 198)

وجماعة المسلمين العدول يقومون مقام الحاكم في ذلك وفي كل أمر يتعذر الوصول إلى الحاكم أو لكونه غير عدل.

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۰۲.شعبان۱۴۴۶ہجری

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب