03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نزاعی مسئلہ،نیز بیوہ،چار بیٹے اور ایک بیٹی میں وراثت کی تقسیم
86617میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

اہم وضاحت

 دارالافتاء جامعۃالرشید سے ایک فتوی ،حوالہ نمبر 24190/46 ،فتوی نمبر86617/64 ،بعنوان "نزاعی مسئلہ،نیز بیوہ،چار بیٹے اور ایک بیٹی میں وراثت کی تقسیم"سائل کے سوال کے مطابق جاری کیا گیا تھا،مذکورہ سؤال میں سائل کی طرف سے سوال میں چند غلطیاں برقرار رہ گئی تھیں،جن کی تصحیح کرکے سائل نے دوبارہ سؤال بھیجا ہے،تصحیحات میں جو ضروری تصحیح ہے جس کی وجہ سے جواب میں کچھ تفصیل کی ضرورت محسوس ہوئی ،وہ سوال نمبر 5 سے متعلق ہے ،اس کے علاوہ فقط معمولی نوعیت کی تصحیحات ہیں جو استفتاء کے تفصیلی جواب میں کردی گئی ہیں۔جدید فتوی ساتھ منسلک ہے۔

میرے والد صاحب کا انتقال  9 دسمبر 2009 عیسوی  میں ہوا،ورثاء میں بیوی ، چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے ۔کاروبار کیونکہ سب بھائی اور والد کی زیر نگرانی ہو رہا تھا،والد صاحب کے حکم کے مطابق چاروں بھائیوں کومکان ڈیفنس میں بنا کر دیے،ورثاء میں وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی؟

اگر چار بیتے والد صاحب کے ساتھ مل کرکام کر رہے ہوں تو کیا سب رقم، جائیداداور فیکٹری وغیرہ کے مالک والد صاحب ہوئے؟کہ والد صاحب کی وفات کے بعد یہ تمام اشیاء وراثت میں تقسیم کی جائیں؟

 فوری وراثت تقسیم نہیں ہو سکی ،وارثان میں کاروبار کے دو گروپ ہیں،جبکہ والدہ اور بہن بھی وارث ہیں۔کاروبار کےدوگروپ ہیں، پہلاگروپ بٹن فیکٹری چلانےپر مامور ہے یعنی چھوٹے دو بھائی اوردوسرا گروپ یعنی بڑے دو بھائی جو دفتر میں امپورٹ کا کام سنبھالتے ہیں۔ والد صاحب دوسرے گروپ کے ساتھ بیٹھتے تھے اور تمام بھائیوں کو علیحدہ علیحدہ مکان بنا کر دیے، جو سب دوسرے گروپ کےکاروبار سے رقوم نکلیں،تمام جائداد دوسرے گروپ کی وجہ سے بنی اور ٹیکس میں دکھانے کے لیے پہلے گروپ کے نام پر تھیں،پچھلے چند سالوں سے پہلے گروپ کو زیادہ نفع ہوتا رہاجبکہ دوسرے گروپ کو کم نفع یا نقصان ہوتا رہا۔پچھلے ڈیڑھ سال میں پہلے گروپ کے شہزادصاحب بمع فیملی عمرے پر گئے اور بڑے بھائی کی بغیر اجازت یا بغیر اطلاع دیے ۔ایئر پورٹ سے فون کیا اور بڑے بھائی کو ناراضگی لگی تو اس  نے کہا کہ میں آپ کے لیے مر گیا ہوں کہ مجھے ایئر پورٹ سے فون  کر رہے ہو؟جس کے جواب میں پورے اس عرصہ میں ہماری بات چیت اور گھروںمیں آنا جانا بند رہا، حالاں کہ والدہ نے شہزاد کو عمرہ سے آنے کے بعد کہا کہ تم بیوی کے ساتھ بڑے بھائی کے گھر چلے جاؤ تو بات ختم ہو جائے گی، مگر انھوں نے عمل نہیں کیا ۔

دوسرے گروپ کو نقصانات زیادہ ہو رہے تھے، اس لئے انھوں نے مختلف لوگوں سےرقوم لی تھیں ۔ اس نقصان میں ایک فیکٹری رسی بنانے کی بھی لگائی گئی ،مگر ورکنگ کیپیٹل کی کمی اور covid بھی اس نقصان کا سبب بنا۔

اس دوران دوسرےگروپ نے ایک پلاٹ جو کہ  بہت پہلے خریدا تھا وہ بیچ کر بہن کو اندازاً وراثت کے دے دیےاور کچھ رقم بھائیوں نے بانٹ لی ۔ فرضی طور پر ایک حساب بنایا گیا، کیونکہ چھوٹے، بھائی  وراثت کے بانٹنے کے لئے ہمیشہ لیت  ولعل سے کام لیتے تھے اور پھر سب بھول جاتے یا جھگڑے سے ڈرتے تھے وغیرہ۔

 اس انداز کے حساب نے پہلے گروپ میں شایدیہ غلط فہمی ڈال دی کہ وراثت تقسیم ہو گئی یا فیصلہ ہو گیا ۔اب جب ڈیڑھ سال سے حساب کتاب اکٹھے کیے دونوں گروپوں کے تو پہلے گروپ کے حسابات میں کافی فرق نظر آیا، اس لئے انھیں پہلے اپنے طور پر کیا گیامگر وه بضد تھے کہ ان کا حساب صحیح ہے۔

ان کی بیویوں کے مختلف اکاؤنٹوں میں کافی رقم کے ثبوت بھی دیے گئے ، اس کے علاوہ انھوں نے لاہور میں ایک پلاٹ خریدا جو کہ ان کے مطابق ان کے سسر نے دیا  ہے۔جھگڑا اتنا طویل ہو گیا کہ دوسرا گروپ زمین پر آگیا اور اپنےگھر کے اخراجات بھی پورے نہ کر سکتا تھا ۔اسی طرح دوسرے گروپ کو پتہ چلا کہ پہلے گروپ کے ایک ساتھی نے اس بٹن فیکٹری کے شیئر زجو کہ والد کے نام تھے ،جعلی دستخط کرکے اپنےبیٹے کے نام کرلیے ہیں اور ایک ایکڑ یا کچھ کم کا پلاٹ بھی لے لیاہےجو کہ دو سرے بھائی نے اپنے بیٹے کے نام  کیا،یہ سب کار روائی دوسرے بھائیوں سے چھپا کر کی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہےکہ اگر وراثت تقسیم نہیں ہوئی تو کیا کوئی بھائی اپنی اولاد کو کس طرح مالک بنا سکتا ہے؟ دو گروپ کے حساب میں ایک میں نفع ہے اور دوسرے میں نقصان ہے،اب وراثت تقسیم کرنی ہے تو دونوں گروپوں کے نفع نقصان کو برابر کیا جائے گا، پھر برابررقم تقسیم کی جائے گی ؟جن لوگوں سے ادھار لیا ہے اور واپس نہیں کیا گیا وہ کس طرح ہوگا؟اگر حساب مکمل ہوتا ہے تو جو پراپرٹی اور فکس ایسٹ ہیں، ان کو کوئی بھی لے سکتا ہے یا صرف پہلاگروپ ہی لے سکتا ہے۔ایک مشکل مرحلہ ہے، اس لیے آپ حضرات سے درخواست ہے کہ پہلے ایک غلطی کا نقصان ہم بھگت رہے ہیں،اب کوئی اور غلطی نہ ہو جائے، اس لیے شرعی طور پر وراثت تقسیم کرنے کے لیے مدد فرمائیں۔

خلاصۂ سوالات:

(1میرے والد صاحب کا انتقال 9 دسمبر 2009 عیسوی میں ہوا،ورثاء میں بیوی ، چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے،ورثاء میں وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی؟

(2اگر چار بیتے والد صاحب کے ساتھ مل کرکام کر رہے ہوں تو کیا ساری رقم، جائیداداور فیکٹری وغیرہ کے مالک والد صاحب ہوئے؟تاکہ والد صاحب کی وفات کے بعد یہ تمام اشیاء وراثت میں تقسیم کی جائیں یا والد صاحب کا حصہ ان ساری اشیاء میں پانچواں ہوگا اور بقیہ چار بیٹوں کا ہوگا؟ کیونکہ 4 بھائی اور والد صاحب اکٹھے کام کررہے تھے۔

(3والد صاحب کے حکم کے مطابق چاروں بھائیوں کومکان ڈیفنس میں بنا کر دیے گئے،تمام بھائیوں کو علیحدہ علیحدہ مکان بنا کر دیے گئے،ان مکانات کاحکم کیا ہوگا؟

(4دوسرےگروپ نے ایک پلاٹ جو کہ بہت پہلے خریدا گیا تھا،وہ بیچ کر بہن کو اندازاً وراثت کے دے دیےاور کچھ رقم بھائیوں نے بانٹ لی ، فرضی طور پر ایک حساب بنایا گیا۔اس کا کیا حکم ہوگا؟

(5 دوسرے گروپ کو نقصانات زیادہ ہو رہے تھے، اس لئے انھوں نے مختلف لوگوں سےرقوم لی تھیں،اس کے علاوہ پہلے گروپ کی رضامندی سےاور والدہ و بہن کو مطلع کرکے ایک فیکٹری رسی بنانے کی بھی لگائی گئی ،مگر ورکنگ کیپیٹل کی کمی اور covid اس کےنقصان کا سبب بنا،ان قرضوں اور نقصان کا کیا حکم ہوگا؟

 (6دوسرے گروپ کو پتہ چلا کہ پہلے گروپ کے ایک ساتھی نے بٹن فیکٹری کے شیئر زجو کہ والد ہ کے نام تھے،جعلی دستخط کرکے اپنےبیٹے کے نام کرلیے ہیں اور ایک ایکڑ یا کچھ کم کا پلاٹ لے لیا جو کہ دو سرے بھائی نے اپنے بیٹے کے نام کیا،یہ سب کارروائی دوسرے بھائیوں سے چھپا کر کی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہےکہ اگر وراثت تقسیم نہیں ہوئی تو کیا کوئی بھائی اپنی اولاد کو کس طرح مالک بنا سکتا ہے؟اس کا حکم کیا ہوگا؟

7)مشترکہ کاروبار سے ہونے والے اخراجات کا حکم کیا ہوگا،یعنی روز مرہ اور اس کے علاوہ حج عمرہ کے اخراجات وغیرہ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1مرحوم کی منقولہ و غیر منقولہ جائداد کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ تجہیز و تکفین کا خرچ منہاکرنے اورمرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہوتواسےاداکرنےکےبعد،یامرحوم نےکوئی جائزوصیت کی ہوتواسےایک تہائی ترکہ میں نافذکرنےکےبعد،باقی منقولہ وغیر منقولہ جائداد بہتر (72) حصوںمیں تقسیم کرکےمرحوم کی زوجہ کو نو (9) حصے،ہر بیٹےکو چودہ (14) حصےاوربیٹی کو سات (7) حصےملیں گے۔ فیصد کے اعتبار سے 12.50 فیصد زوجہ کو،19.44 فیصدہر ایک بیٹے کو اور 9.72 فیصد بیٹی کو ملے گا۔

یاد رہے مذکورہ تقسیم اس بنیاد پر کی گئی ہے   کہ سوال میں دی گئی معلومات کے مطابق مرحوم  کی وفات کے وقت مرحوم کے ورثاء میں فقط ایک زوجہ،چار بیٹے اور ایک بیٹی تھیں،ان کے علاوہ کوئی اور وارث جیسے مرحوم کے والدین وغیرہ زندہ نہیں تھے۔

مرحوم سے رشتہ

عددی حصہ

فیصدی حصہ

بیوہ

9/72

12.50فیصد

(1)بیٹا

14/72

19.44 فیصد

(2)بیٹا

14/72

19.44 فیصد

(3)بیٹا

14/72

19.44 فیصد

(4)بیٹا

14/72

19.44 فیصد

بیٹی

7/72

9.72 فیصد

مجموعہ

72

100فیصد

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 769)

(فيفرض للزوجة فصاعدا الثمن مع ولد أو ولد ابن) وأما مع ولد البنت فيفرض لها الربع (وإن سفل والربع لها عند عدمهما) فللزوجات حالتان الربع بلا ولد والثمن مع الولد.

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 234)

قال - رحمه الله - ( وعصبها الابن، وله مثلا حظها) معناه إذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين لقوله تعالى {يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين} [النساء: 11] فصار للبنات ثلاثة أحوال النصف للواحدة والثلثان للاثنتين فصاعدا، والتعصيب عند الاختلاط بالذكور.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 772)

(قوله والسدس لبنت الابن إلخ) للبنات ستة أحوال ثلاثة تتحقق في بنات الصلب، وبنات الابن وهي النصف للواحدة والثلثان للأكثر وإذا كان معهن ذكر عصبهن وثلاثة تنفرد بها بنات الابن.

الاختيار لتعليل المختار (5/ 91)

وأما الاثنان من السبب فالزوج والزوجة، فللزوج النصف عند عدم الولد وولد الابن، والربع مع الولد أو ولد الابن، وللزوجة الربع عند عدمهما، والثمن مع أحدهما بذلك نطق صريح الكتاب، والزوجات والواحدة يشتركن في الربع

الفتاوى الهندية (6/ 451)

فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف: جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 762)

(فيبدأ بذوي الفروض)….. (ثم بالعصبات)

الفتاوى الهندية (6/ 447)

فيبدأ بذي الفرض ثم بالعصبة النسبية ثم بالعصبة السببية

(2تمہید کے طور پر یہ سمجھیے کہ مشترکہ خاندان میں اموال واشیاء کی ملکیت فقط والد کی شمار ہو گی یا ساتھ کام کرنے والے بیٹوں کی بھی شمار ہوگی؟اس میں تفصیل ہے:

(الف)والد کاپہلے سےکوئی روزگار (مثلاً کاروبار وغیرہ) ہو،بعد میں بیٹے والد کے ساتھ بطورِ معاون،نہ  کہ بطورِ شریک اسی کام میں لگ جائیں،اور بیٹوں کی اپنی کوئی مستقل کمائی والد کے کاروبار کے علاوہ  نہ ہو۔

(ب)بیٹے والد کےکاروبار میں اس کے معاون بنے بغیر خود اپنے طور پر کماتے ہوں لیکن وہ اپنی کمائی والدکو مالک بناکر دیتے ہوں۔

مذکورہ  دونوں صورتوں میں بیٹوں کی کمائی کے مالک بھی والد صاحب ہی ہوں گے،لہٰذا ایسے تمام اموال و اشیاء جو والد صاحب نے باقاعدہ مالک بناکراور قبضہ کرواکر بیٹوں وغیرہ کو نہ دیے ہوں،وہ سب کے سب والدصاحب کی ملکیت شمار ہوں گے ۔

(ج) بیٹے خود مستقل کمائی کرتے ہوں(مثلاً ملازمت یا علیحدہ سے کوئی کام جس کاکوئی تعلق والد صاحب کے کاروبار یا سرمایے سے نہ ہو)اور کمائی کی رقم والد کو مالک بنائے بغیر صرف گھر میں خرچ  کرنے کے لیے دیتے ہوں۔

(د)بیٹے والد کے شروع کردہ کاروبار میں اُن کے ساتھ باقاعدہ شریک کی حیثیت سے کام کرتے ہوں۔

ان دونوں صورتوں میں ہر ایک اپنی کمائی کا مالک شمار ہوگااور تمام اموال واشیاء والد صاحب کی ملکیت شمار نہیں ہوں گے،بشرطیکہ بیٹے جب والد کے کاروبار میں شریک ہوئے ہوں تو شرکت کی صراحت ہو کہ بیٹے والد صاحب کے ساتھ بطور معاون کے کام نہیں کریں گے بلکہ بطور شریک (Partner) کام کریں گےاور اس کے بعد شرکت صحیحہ کے تمام شرعی احکام کا لحاظ بھی رکھا گیا ہو،مثلاً شرکت کا تناسب اور نفع میں حصہ وغیرہ۔

  • اگر واضح عرف یہ ہے کہ والد صاحب کے ساتھ ان کے کاروبار میں ،جب بیٹے شامل ہوتے ہیں تو بطور معاون ہوتے ہیں نہ کہ شریک توصورت مسؤولہ میں اگر صراحتاً شرکت کی وضاحت بیٹوں کےوالد صاحب کے کاروبار میں شامل ہوتے وقت ، نہ کی گئی ہو تو چاروں بیٹے معاون شمار ہوں گےاور ساری رقم،جائداد اور فیکٹری وغیرہ والد صاحب کی ملکیت شمار ہو گی اور ان کی وفات ہوجانے کی وجہ سے،ان کے تمام ورثاء بشمول معاون بیٹوں کے،صرف شرعی وراثتی حصے کے حقدار ہوں گے۔
  • اگر واضح عرف معاون ہونے کا نہ ہو اور شرکت کی صراحت بھی نہ ہو تو چونکہ آج کل اتنا  عرصہ بلا معاوضہ کوئی شخص مفت میں  کام نہیں کرتا،اس لیے چاروں بیٹوں کو اتنا عرصہ مذکورہ کاروبار میں کام کرنے پر، اجرتِ مثل (تاجروں کے عرف میں اس طرح  کےکاروبار میں کام کرنے پر جو اجرت ماہانہ دی جاتی ہو)  دی جائے گی۔

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2/ 17)

(سئل) في رجل ساكن في بيت أبيه في جملة عياله وصنعتهما متحدة يعينه بتعاطي أموره ولا يعرف للابن مال سابق فاجتمع مال بكسبه ويريد أن يختص به بدون وجه شرعي فهل جميع ما حصله بكسبه ملك لأبيه ولا شيء له فيه؟

(الجواب) : نعم جميع ما حصله بكسبه ملك لأبيه لا شيء له فيه حيث كان من جملة عياله والمعين له في أموره وأحواله وصنعتهما متحدة ولا يعرف للابن مال سابق؛ لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يصنع كما صرح بذلك في الخلاصة والبزازية ومجمع الفتاوى وأفتى بذلك الخير الرملي إذا تنازع الرجل مع بنيه الخمسة وهم في دار أبيهم كلهم في عياله فقال البنون المتاع متاعنا والأب يدعيه لنفسه فإن المتاع يكون للأب وللبنين الثياب التي عليهم لا غير إلخ من القول لمن في كتاب الدعوى.

(أقول) وفي الفتاوى الخيرية سئل في ابن كبير ذي زوجة وعيال له كسب مستقل حصل بسببه أموالا ومات هل هي لوالده خاصة أم تقسم بين ورثته أجاب هي للابن تقسم بين ورثته على فرائض الله تعالى حيث كان له كسب مستقل بنفسه.

وأما قول علمائنا أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط منها اتحاد الصنعة وعدم مال سابق لهما وكون الابن في عيال أبيه فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب وانظر إلى ما عللوا به المسألة من قولهم؛ لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يضع فمدار الحكم على ثبوت كونه معينا له فيه فاعلم ذلك اهـ.

وأجاب الخير الرملي عن سؤال آخر بقوله حيث كان من جملة عياله والمعينين له في أموره وأحواله فجميع ما حصله بكده وتعبه فهو ملك خاص لأبيه لا شيء له فيه حيث لم يكن له مال ولو اجتمع له بالكسب جملة أموال؛ لأنه في ذلك لأبيه معين حتى لو غرس شجرة في هذه الحالة فهي لأبيه نص عليه علماؤنا رحمهم الله تعالى فلا يجري فيه إرث عنه لكونه ليس من متروكاته اهـ.

وأجاب أيضا عن سؤال آخر بقوله إن ثبت كون ابنه وأخويه عائلة عليه وأمرهم في جميع ما يفعلونه إليه وهم معينون له فالمال كله له والقول قوله فيما لديه بيمينه وليتق الله فالجزاء أمامه وبين يديه وإن لم يكونوا بهذا الوصف بل كان كل مستقلا بنفسه واشتركوا في الأعمال فهو بين الأربعة سوية بلا إشكال وإن كان ابنه فقط هو المعين والإخوة الثلاثة بأنفسهم مستقلين فهو بينهم أثلاثا بيقين والحكم دائر مع علته بإجماع أهل الدين الحاملين لحكمته.

عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية-لإمام محمد عبد الحي اللكنوي (6/ 301)

(2) قوله: نصفين؛ لكونه الظاهر حين تحصيلهما معا، وعلى هذا ذكر في ((الفتاوي الخيرية)) أنه لو اجتمع زوج وامرأته وابنه في دار واحدة، وأخذ كل منهما يكتسب على حدة، ويجمعان كسبهما، ولا يعلم التساوي ولا التفاوت ولا التمييز، فيجعل المال بينهما على السوية، وكذلك لو اجتمع أخوة يعملون في تركة أبيهم، ونماء المال فهو بينهم على السوية، وإن اختلفوا في العمل والرأي وهذا كله في غير الأب وابنه، فقد ذكر في ((القنية))(ق130/أ): الأب والابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء، فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله؛ لكونه معينا له.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 325)

مطلب: اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية [تنبيه] يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز.

فأجاب بأنه بينهما سوية، وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ وقدمنا أن هذا ليس شركة مفاوضة ما لم يصرحا بلفظها أو بمقتضياتها مع استيفاء شروطها، ثم هذا في غير الابن مع أبيه؛ لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب ثم ذكر خلافا في المرأة مع زوجها إذا اجتمع بعملهما أموال كثيرة، فقيل هي للزوج وتكون المرأة معينة له، إلا إذا كان لها كسب على حدة فهو لها، وقيل بينهما نصفان.

وفي الخانية: زوج بنيه الخمسة في داره وكلهم في عياله واختلفوا في المتاع فهو للأب وللبنين الثياب التي عليهم لا غير، فإن قالوا هم أو امرأته بعد موته: إن هذا استفدناه بعد موته فالقول لهم، وإن أقروا أنه كان يوم موته فهو ميراث من الأب.

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 230 دار الكتب العلمية، بيروت)

استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم، وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له استأجر شيئا لينتفع به خارج المصر فانتفع به في المصر، فإن كان ثوبا وجب الأجر وإن كان دابة لا.

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (3/ 125دار الكتب العلمية)

فالعبرة لعادتهم:  أي لعادة أهل السوق فإن كانوا يعملون بالأجر يجب أجر المثل وإن كانوا يعملون بغير أجر فلا يجب أجره؛ وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعينه على بعض أعماله كذا في الولوالجية.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 42 دار الفكر-بيروت)

(قوله فالعبرة لعادتهم) أي لعادة أهل السوق، فإن كانوا يعملون بأجر يجب أجر المثل وإلا فلا. (قوله اعتبر عرف البلدة إلخ) فإن كان العرف يشهد للأستاذ يحكم بأجر مثل تعليم ذلك العمل، وإن شهد للمولى فأجر مثل الغلام على الأستاذ درر۔

3)واضح رہے کہ زندگی میں جائداد وغیرہ کی تقسیم ہبہ یعنی گفٹ کہلاتی ہے۔ہبہ یعنی گفٹ کا حکم یہ ہے کہ ہبہ کرتے ہوئےاولاد میں برابری کی جائے یعنی بیٹے اور بیٹیوں، سب کو برابر حصہ دیا جائے،نیزہبہ کرتے ہوئے یہ بھی ضروری ہے کہ واہب یعنی ہبہ کرنے والاموہوب لہ(یعنی جس کو ہبہ کیا گیا ہے) کا مالکانہ تصرف کے اختیار کے ساتھ ہبہ کی جانے والی چیز پر مکمل قبضہ کروائے تاکہ ہبہ یعنی گفٹ کی تکمیل شرعی طریقے سے ہوجائے۔ زندگی میں جائداد وغیرہ تقسیم کرنےکے شرعی طریقےکی تفصیل درج ذیل ہے۔

۱۔اولاد میں برابر حصہ تقسیم کرےاور ہر ایک کو اس کےحصے کا مالک بنا کر باقاعدہ تقسیم کرکے قبضہ کروائے ۔

۲۔اگر اولاد میں برابر حصہ تقسیم نہیں کیا اور برابر حصہ تقسیم نہ کرنے کی وجہ، کسی کو نقصان پہنچانا ہے تویہ عمل مکروہ تحریمی ہے ،اگر نقصان پہنچانا مقصود نہیں اور کوئی وجہ ترجیح بھی نہیں تو یہ عمل مکروہ تنزیہی ہے ،اس لیے کہ بہرحال اولاد میں سے ہر ایک کو خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی برابرہبہ( گفٹ) کرنا یہ مستحب ہے۔

۳۔ اولاد کو ہبہ کرتے ہوئے کسی معقول وجہ سے کمی بیشی کی جاسکتی ہے،مثلاً دینداری، امور دینیہ میں مشغول ہونا،خدمت یا زیادہ محتاج ہونا  وغیرہ اور اس طرح کی وجوہات کی وجہ سے کمی بیشی کرنا  مستحب ہے۔

۴۔اگر میراث کے مطابق بیٹوں کو بیٹیوں سے دگنا حصہ دےتو اس کی بھی گنجائش ہے۔

۵۔اگر جائداد مشترکہ طور پر ہبہ کرنے کا ارادہ ہو اور جائداد قابل تقسیم ہوتو باقاعدہ تقسیم کرکے مالک بنا کر قبضہ کروائے تاکہ ہبہ کی تکمیل شرعاً بھی ہوجائے، البتہ اگر جائداد قابل تقسیم ہواورواہب(گفٹ کرنے والا)موہوب لہ(جن کو گفٹ کیا گیا ہے) میں سے کسی ایک کو اس کی تقسیم کا باقاعدہ وکیل بنادےتو اس طرح اُس وکیل کو تخلیہ (vacant possession) کرادینے سےبھی ہبہ تام ہوجائے گا،اوراگر جائداد وغیرہ ایسی ہوں کہ ناقابل تقسیم ہوں یعنی تقسیم کرکے ان سے نفع اٹھانا ممکن نہ ہو تو ایسی جائداد وغیرہ کو مشترکہ طور پر ہبہ کرنا شرعاً درست ہے،بشرطیکہ قبضہ بھی کروادیا ہو۔

            جیسا کہ آپ نے واٹساپ پر وضاحت کی ہے کہ والد صاحب نے چاروں بیٹوں کو اپنی زندگی میں الگ الگ مکان بنواکر،نام پر کروا کر قبضے میں دے دیے تھے،لہٰذا والد صاحب کی طرف سے یہ ہبہ معتبر ہوگااور ہر بیٹا ان مکانات میں سے اپنے اپنے مکان کا مالک شمار ہوگا،اس لیے یہ مکانات والد مرحوم کی وراثت میں تقسیم نہیں ہوں گے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (7/ 288)

يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم كذا في المحيط وفي فتاوى قاضي خان رجل أمر شريكه بأن يدفع إلى ولده مالا فامتنع الشريك عن الأداء كان للابن أن يخاصمه إن لم يكن على وجه الهبة وإن كان على وجهها لا لأنه في الأول وكيل عن الأب وفي الثاني لا وهي غير تامة لعدم الملك لعدم القبض وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة ولو كان ولده فاسقا فأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث هذا خير من تركه لأن فيه إعانة على المعصية ولو كان ولده فاسقا لا يعطي له أكثر من قوته.

عيون المسائل للسمرقندي الحنفي (ص: 350)

التسوية في الهبة بين الابن والابنة

1733. رجل له ابن وابنة فأراد أن يهب لهما شيئاً فالأفضل أن يسوي بينهما في قول أبي يوسف، وقَالَ مُحَمَّدٌ: يجعل للذكر مثل حظ الانثيين. فإن وهب ماله كله للابن؟ قَالَ: هو آثم وأجيزه في القضاء.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696)

وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690)

(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 445)

لو أراد أن يبر أولاده فالأفضل عند محمد أن يجعل للذكر مثل حظ الأنثيين، وعند أبي يوسف يجعلهما سواء وهو المختار.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 119)

(ومنها) أن يكون محوزا فلا تجوز هبة المشاع فيما يقسم وتجوز فيما لا يقسم كالعبد والحمام والدن ونحوها وهذا عندنا.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 692)

(قوله: فإن قسمه) أي الواهب بنفسه، أو نائبه، أو أمر الموهوب له بأن يقسم مع شريكه كل ذلك تتم به الهبة كما هو ظاهر لمن عنده أدنى فقه تأمل، رملي والتخلية: في الهبة الصحيحة قبض لا في الفاسدة جامع الفصولين.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690)

(و) تصح الھبۃ (بقبض ).                                                                       

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 563)

قال - رحمه الله - (وعصبهما الابن وله مثل حظهما) معناه إذا اختلط البنون والبنات عصب البنات فيكون للابن مثل حظهما فصار للبنات ثلاثة أحوال النصف للواحدة والثلثان للاثنين فصاعدا والتعصيب عند الاختلاط بالذكور.

(4جہاں تک بات ہے پلاٹ کی کہ پلاٹ بیچ کر اس کی رقم میں سےفرضی حساب کی بنیادپربہن کو کچھ رقم دی گئی اور بقیہ بھائیوں نے آپس میں تقسیم کرلی،اس حوالے سےشرعی حکم یہ ہے کہ اگر یہ رقم وراثتی حصے کی صراحت کرکے بہن کو دی گئی تھی تو یہ وراثت شمار ہوگی لیکن اس کی وجہ سے بہن کی شرکت والد صاحب کے کاروبار اور دیگر جائداد وغیرہ میں ختم نہیں ہوگی،اسی طرح اس رقم میں سے بھائیوں نے جو رقم لی اور وراثت کے طور پر لی تو یہ وراثت شمار ہوگی لیکن اس کی وجہ سے والد صاحب کے کاروبار اور دیگر جائداد وغیرہ میں بھائیوں کی شرکت ختم نہیں ہوگی، کیونکہ شرکت دوسرے شریک کے علم میں لائے بغیر یک طرفہ طور پر ختم نہیں کی جا سکتی،اس لیےشرکت باقی رہے گی اوروصول کی گئی  رقم ،کاروبار میں ان کے وراثتی حصے سےمنہا کر لی  جائے گی۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 370، المادة( 1353 

 (تنفسخ الشركة بفسخ أحد الشريكين، ولكن يشترط أن يعلم الآخر بفسخه، ولا تنفسخ الشركة ما لم يعلم الآخر بفسخ الشريك)....ولا يشترط في حصة الفسخ رضاء الآخر.

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (370/3)دار الجيل، بيروت:

تنفسخ الشركة بفسخ أحد الشريكين أو بإنكاره الشركة أو بقول أحدهما للآخر لا أعمل معك فإنه بمنزلة فاسختك وتنفسخ ولو كان مال الشركة موجودا في حالة العروض................. ولكن يشترط أن يعلم الآخر بفسخه لأن هذا الفسخ عزل عن الوكالة. انظر المادة (1523) فلذلك لا تنفسخ الشركة ما لم يعلم الآخر فسخ الشريك لها. وفي هذه الصورة إذا عقد ثلاثة عقد شركة مفاوضة وغاب أحدهما وأراد الحاضران فسخ الشركة فليس لهما فسخها ما لم يعلم الغائب بالفسخ.

(5 دوسرے گروپ نے مختلف لوگوں سے جو رقوم لی ہیں،اس حوالے سے تفصیل یہ ہے کہ:

  • اگر وہ رقوم اپنے ذاتی اخراجات وغیرہ کے لیے لی تھیں تو اس کی ادائیگی کے ذمہ دار یہ خود ہوں گے،تمام ورثاء نہیں ہوں گے۔
  • اگر وہ رقوم والد صاحب کے کاروبار کے لیے لی گئی تھیں اور تمام ورثاء، بشمول والدہ اور بہن کی اجازت سے لی تھیں تو ان کی ادائیگی کے ذمہ دار تمام ورثاء ہوں گے،اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ پہلے یہ رقوم جو کہ قرض ہیں،ادا کی جائیں گی ،پھر وراثت تقسیم ہوگی۔
  • رسی بنانے کی فیکٹری  کے حوالے سے جو وضاحت سؤال میں  کی گئی ہے کہ دوسرے گروپ نے پہلے گروپ کی اجازت سے اور والدہ وبہن کو باقاعدہ مطلع کرکے یہ فیکٹری لگائی تھی اور اس میں نقصان ہوا ہے، تواس کا شرعی حکم یہ ہے کہ یہ نقصان تمام ورثاء کی طرف سے سمجھا جائے گا،کوئی ایک شریک یا بعض شرکاء اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔
  • جو نقصان کسی شریک کی غفلت یا کوتاہی کے بغیربراہ راست والد صاحب کے کاروبار میں ہوا ہے،وہ سب تمام ورثاء جو کہ شرکاء بھی ہیں،کی طرف سے سمجھا جائے گا،اور جو نقصان کسی شریک کی غفلت یا کوتاہی کی وجہ سے والد صاحب کے کاروبار میں ہوا ہے،اس کا ذمہ دار وہ شریک خود ہوگا تمام ورثاء نہیں ہوں گے۔

 [المعيار الشرعي رقم (۱۲)الشركة (المشاركة والشركات الحديثة)ص:۳۲۹]

۳/۱/۳/۱ ۔الأصل أن لكل شريك حق التصرف بالشراء والبيع بالثمن الحال أو المؤجل والقبض والدفع والإيداع والرهن والارتهان والمطالبة بالدين والإقرار به والمرافعة والمقاضاة والإقالة والرد بالعيب والاستئجار والحوالة والاستقراض وكل ما هو من مصلحة التجارة والمتعارف عليه. وليس للشريك التصرف بما لا تعود منفعته على الشركة أو بما فيه ضرر مثل الهبة أو الإقراض إلا بإذن الشركاء، أو بالمبالغ اليسيرة وللمدد القصيرة حسب العرف.

المبسوط للسرخسي (11/ 151)

 (فشركة الملك) أن يشترك رجلان في ملك مال، وذلك نوعان: ثابت بغير فعلهما كالميراث، والحكم واحد، وهو أن ما يتولد من الزيادة يكون مشتركا بينهما بقدر الملك، وكل واحد منهما بمنزلة الأجنبي في التصرف في نصيب صاحبه.

الموسوعة الفقهية الكويتية (27/ 18، بترقيم الشاملة آليا)

الأصل أنّ كلّ واحد من الشّريكين أو الشّركاء في شركة الملك أجنبيّ بالنّسبة لنصيب الآخر. لأنّ هذه الشّركة لا تتضمّن وكالةً ما ، ثمّ لا ملك لشريك ما في نصيب شريكه ، ولا ولاية له عليه من أيّ طريق آخر . والمسوّغ للتّصرّف إنّما هو الملك أو الولاية وهذا ما لا يمكن تطرّق الخلاف إليه .

ويترتّب على ذلك ما يلي :

ليس لشريك الملك في نصيب شريكه شيء من التّصرّفات التّعاقديّة : كالبيع ، والإجارة ، والإعارة وغيرها ، إلاّ أن يكون ذلك بإذن شريكه هذا . فإذا تعدّى فآجر ، مثلاً ، أو أعار العين المشتركة فتلفت في يد المستأجر أو المستعير ، فلشريكه تضمينه حصّته وهذا أيضاً ممّا لا خلاف فيه .

 لكلّ شريك في شركة الملك أن يبيع نصيبه لشريكه ، أو يخرجه إليه عن ملكه على أيّ نحو ، ولو بوصيّة ، إلاّ أنّ المشترك لا يوهب دون قسمة ، ما لم يكن غير قابل لها . وسيأتي استثناء حالة الضّرر . هكذا قرّره الحنفيّة .

(6والد صاحب کے کاروبار میں سے جس بھائی نے شیئرز یا پلاٹ لے کراپنے بچوں وغیرہ میں سے کسی کو دیا ہے،شرعاً یہ معتبر نہیں کیوں کہ وراثت ابھی تقسیم نہیں ہوئی ہے،لہٰذا وہ ان سے واپس لے کر پہلے مکمل وراثت تمام ورثاء کے درمیان شرعی حصص کے مطابق تقسیم کی جائے،پھر ہر وارث کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنے حصے میں جیسے چاہے تصرف کرے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (27/ 18، بترقيم الشاملة آليا)

الأصل أنّ كلّ واحد من الشّريكين أو الشّركاء في شركة الملك أجنبيّ بالنّسبة لنصيب الآخر. لأنّ هذه الشّركة لا تتضمّن وكالةً ما ، ثمّ لا ملك لشريك ما في نصيب شريكه ، ولا ولاية له عليه من أيّ طريق آخر . والمسوّغ للتّصرّف إنّما هو الملك أو الولاية وهذا ما لا يمكن تطرّق الخلاف إليه .

ويترتّب على ذلك ما يلي :

ليس لشريك الملك في نصيب شريكه شيء من التّصرّفات التّعاقديّة : كالبيع ، والإجارة ، والإعارة وغيرها ، إلاّ أن يكون ذلك بإذن شريكه هذا . فإذا تعدّى فآجر ، مثلاً ، أو أعار العين المشتركة فتلفت في يد المستأجر أو المستعير ، فلشريكه تضمينه حصّته وهذا أيضاً ممّا لا خلاف فيه .

 لكلّ شريك في شركة الملك أن يبيع نصيبه لشريكه ، أو يخرجه إليه عن ملكه على أيّ نحو ، ولو بوصيّة ، إلاّ أنّ المشترك لا يوهب دون قسمة ، ما لم يكن غير قابل لها . وسيأتي استثناء حالة الضّرر . هكذا قرّره الحنفيّة .

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 715)

(وكل منهما) أي كل واحد من الشريكين أو الشركاء شركة ملك (أجنبي في نصيب الآخر) حتى لا يجوز له التصرف فيه إلا بإذن الآخر كغير الشريك لعدم تضمنها الوكالة.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 26)

وأما صفات القسمة فأنواع: منها أن تكون عادلة غير جائرة وهي أن تقع تعديلا للأنصباء من غير زيادة على القدر المستحق من النصيب ولا نقصان عنه؛ لأن القسمة إفراز بعض الأنصباء، ومبادلة البعض، ومبنى المبادلات على المراضاة، فإذا وقعت جائرة؛ لم يوجد التراضي، ولا إفراز نصيبه بكماله؛ لبقاء الشركة في البعض فلم تجز وتعاد.

7)مشترکہ کاروبار سے سب بھائی جو گھریلو اخراجات کرتے رہے ہیں،ان کے حساب کی ضرورت نہیں، کیونکہ مشترکہ کاروبار کرتے ہوئےاخراجات میں تھوڑی بہت کمی بیشی عرف کی وجہ سے قابلِ مواخذہ نہیں ہوتی، البتہ اگر کسی نے غیر معمولی رقم لی ہو، مثلاکسی بھائی نے مشترکہ رقم سے حج یا عمرہ کیا ہو اور  بعض نے نہ کیا ہوتو وراثت کی تقسیم کےوقت یہ رقم،مشترکہ  کاروبار سے حج عمرہ کرنے والوں کے حصے سے منہا کی جائے گی۔

الفتاوى الهندية (2/ 301)

وركنها اجتماع النصيبين، وحكمها وقوع الزيادة على الشركة بقدر الملك، ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره، وكل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبه ويجوز بيع أحدهما نصيبه من شريكه في جميع الصور ومن غير شريكه بغير إذنه إلا في صورة الخلط والاختلاط، كذا في الكافي.

صحيح البخاري (5/ 2365)

6076 - حدثنا علي بن عبد الله حدثنا سفيان قال سمعت الزهري يقول أخبرني عروة وسعيد بن المسيب عن حكيم بن حزام قال  : سألت النبي صلى الله عليه و سلم فأعطاني ثم سألته فأعطاني ثم سألته فأعطاني ثم قال ( هذا المال ) . وربما قال سفيان قال لي ( يا حكيم إن هذا المال خضرة حلوة فمن أخذه بطيب نفس بورك له فيه ومن أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه وكان كالذي يأكل ولا يشبع واليد العليا خير من اليد السفلى ).

اہم نوٹ: "مذکورہ جواب، سوال   میں ذکر کی گئی تفصیلات کے مطابق لکھا گیا ہے،اگر سوال میں مذکور تفصیلات درست نہ ہوں تو یہ جواب کالعدم شمار ہوگا،ایسی صورت میں مذکورہ معاملے سے متعلق،متعلقہ تمام  افراد متفقہ سوال لکھ کردستخط کرکے، از سر نو کسی مستند دارالافتاء سے رجوع کرنے کے  پابند ہوں گے یا اگر حقیقی صورتحال پر متفق نہ ہوسکیں تو کسی مصالحتی ادارے جیسےجامعۃ الرشید کا ذیلی ادارہSCS(Standard Certification Services [03212000691]  وغیرہ سے رابطہ کرکے اپنے مسئلے کو حل کروانے کی کوشش کریں"۔

حوالہ جات

محمد حمزہ سلیمان

 دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

 ۰۴.شعبان۱۴۴۶ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب