03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بعض ورثا کی اجازت کے بغیر ترکہ میں سے صدقہ کرنے اور حجِ بدل کی وصیت کا حکم
86828میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میری والدہ کا تقریبا چھ سال پہلے انتقال ہوا، ہم صرف تین بہنیں ہیں، ہمارا بھائی کوئی نہیں، والد صاحب کا انتقال والدہ سے پہلے ہوا تھا۔ والدہ کے انتقال کے وقت ان کے والدین، دادا، دادی اور نانی میں سے کوئی زندہ نہیں تھا، البتہ پانچ بھائی اور چار بہنیں زندہ تھیں، جن میں سے اب ایک بھائی کا انتقال ہوچکا ہے، جبکہ چار بھائی اور چار بہنیں زندہ ہیں۔

 ہماری والدہ پر حج فرض ہوا تھا، ان کے پاس اتنے پیسے تھے جس سے وہ خود بھی حج پر جاسکتی تھی اور اپنے ساتھ محرم کو بھی لے کر جاسکتی تھی، لیکن کوئی محرم ان کے ساتھ جانے کے لیے تیار نہیں ہوا، اس لیے انہوں نے مجھے وصیت کی کہ چار لاکھ روپے سے میرے میری طرف سے حج کرلینا۔ والدہ نے انتقال کے وقت کچھ رقم چھوڑی تھی، ہم تین بہنوں نے باہم رضامندی سے وہ رقم امی کے لیے صدقہ کی، البتہ حج کے لیے چار لاکھ روپے چھوڑ دئیے، وہ اب بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔ میں نے اپنا حج کیا ہے، لیکن اب بیمار ہوں۔ اگر والدہ کی طرف سے مجھے حج کرنا پڑے تو میں کرسی پر حج کرسکتی ہوں؟

ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہماری والدہ کی میراث میں ان کے بھائی اور بہنوں کا بھی حصہ ہوگا، اس لیے ہم بہنوں نے پیسے صدقہ کرتے وقت ان سے نہیں پوچھا۔ اب ہم نے سنا کہ ان کا بھی حق بنتا ہے تو ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا واقعتا ان کا حق بنتا ہے؟ اگر ان کا حق بنتا ہے تو اس صورت میں ہم کیا کریں؟   

ہم ماموؤں اور خالاؤں کو فی الحال کچھ نہیں بتاسکتے، پہلے ہمیں شرعی حکم کا علم ہوجائے، اس کے بعد ان شاء اللہ ان سے بات کریں گے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ انسان انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں جو منقولہ و غیر منقولہ مال و جائیداد ،نقد رقم، سونا چاندی، مالِ تجارت غرض ہر طرح کا چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑے یا اگر مرحوم کا کسی شخص یا ادارے کے ذمے  کوئی قرض واجب ہو، وہ سب اس کا ترکہ کہلاتا ہے۔ ترکہ کے ساتھ درجِ ذیل چار حقوق بالترتیب

متعلق ہوتے ہیں:-

  • سب سے پہلے اس سے میت کی تجہیز و تکفین كےمتوسط اخراجات نکالے جائیں گے، البتہ اگر یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان اپنی طرف سے کیے ہوں تو پھر انہیں ترکہ سے نہیں نکالا جائے گا۔
  • اس کے بعد اگر میت کے ذمہ کسی کا قرض واجب الادا ہو تو اس کو ادا کیا جائے گا۔
  •  اس کے بعد اگر اس نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ مال میں سے ایک تہائی (3/1) مال کی حد تک اس پر عمل کیا جائے گا۔
  • اس کے بعد جو کچھ بچے گا، وہ اس کے ورثا میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

(2)۔۔۔ سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق آپ کی والدہ کے ترکہ میں دو تہائی حصہ آپ تین بہنوں کا بنتا تھا، جبکہ بقیہ ایک تہائی حصہ آپ کے پانچ ماموؤں اور چار خالاؤں کا بنتا تھا، لہٰذا آپ بہنوں کا ان کی اجازت کے بغیر والدہ کے ترکہ کی رقم صدقہ کرنا درست نہیں تھا۔ اب آپ کے لیے حکم یہ ہے کہ چار زندہ ماموؤں، چاروں خالاؤں اور فوت شدہ ماموں کے ورثا کو یہ بات بتادیں، اگر وہ اس صدقے کی اجازت دیں اور اس پر رضامندی کا اظہار کریں تو آپ بری الذمہ ہوجائیں گی، لیکن اگر وہ اپنے حصوں کا مطالبہ کریں تو پھر آپ سب بہنوں پر ان کو صدقہ کردہ رقم کا ایک تہائی حصہ دینا لازم ہوگا، جو ان کے درمیان {لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} قاعدے کے مطابق تقسیم ہوگا، یعنی وہ ایک تہائی رقم کل پندرہ حصوں میں تقسیم ہوگی، جس میں سے ہر ماموں کو دو، دو (2، 2) حصے، جبکہ ہر خالہ کو ایک، ایک (1، 1) حصہ ملے گا۔ اگر ان میں سے بعض صدقے پر رضامندی کا اظہار کریں اور بعض اپنے حصوں کا مطالبہ کریں تو جو حصوں کا مطالبہ کریں گے، صرف انہی کو ان کے حصوں کے بقدر رقم دینا لازم ہوگا۔

 (3)۔۔۔ آپ نے والدہ کے ترکہ میں سے حجِ بدل کی وصیت پر عمل کرنے کے لیے جو چار لاکھ روپے رکھے ہیں، اس کے بارے میں یہ دیکھیں کہ آپ کی والدہ نے انتقال کے وقت اس رقم سمیت جو کچھ ترکہ چھوڑا تھا، اس میں سے نمبر (1) میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق تجہیز و تکفین کے اخراجات اور واجب الاداء قرضے نکالنے کے بعد کل کتنا مال بچتا ہے اور یہ چار لاکھ روپے اس کا ایک تہائی بنتا ہے یا اس سے کم یا زیادہ؟ اگر یہ ایک تہائی سے کم یا اس کے برابر ہے تو پھر والدہ کی وصیت کے مطابق پورے چار لاکھ روپے سے حجِ بدل کرنا ضروری ہے۔ لیکن اگر یہ رقم ایک تہائی سے زیادہ ہے تو پھر ایک تہائی رقم والدہ کی وصیت کے مطابق حجِ بدل میں خرچ کرنا ضروری ہے، جبکہ باقی رقم کے حق دار تمام ورثا (آپ تین بہنیں، چار خالائیں اور پانچ ماموں) ہوں گے، البتہ اگر تمام ورثا مرحومہ کی وصیت کے مطابق اس پوری رقم سے حجِ بدل کرانے کی اجازت دیں تو پھر پوری رقم کو حج میں خرچ کرنا درست ہوگا، اگر بعض ورثا اجازت دیں اور بعض اجازت نہ دیں تو جو اجازت دیں، صرف ان کے حصے کی رقم حجِ بدل میں خرچ کرنا درست ہوگا۔  

(4)۔۔۔ اب چونکہ اس رقم کے ذریعے پاکستان سے حج پر جانا ممکن نہیں، اس لیے اگر میقات سے باہر (مثلا مدینہ منورہ اور طائف وغیرہ) کوئی جاننے والا ہو اور وہ آپ کی والدہ کی طرف سے حجِ بدل کے لیے تیار ہو تو نمبر (3) میں ذکر کردہ تفصیل کی روشنی میں پورے چار لاکھ روپے یا اس میں سے جتنی رقم میں وصیت درست ہو، اس سے اس شخص کو حجِ بدل پر بھیج دیں۔ اگر میقات کے باہر سے کسی کو حجِ بدل پر بھیجنے کا خرچہ ادا کرنے کے بعد بھی کچھ رقم بچ جائے اور اس سے مزید لوگوں کو وہاں (میقات کے باہر یا میقات کے اندر) سے حج کرانا ممکن ہو تو ان کو حج کرائیں، یہاں تک کہ اتنی رقم بچ جائے جس سے میقات کے اندر (مثلا مکہ) سے بھی کسی کو حج کرانا ممکن نہ رہے، ایسی صورت میں پھر وہ رقم آپ کی والدہ کے ورثا میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔  

حوالہ جات

القرآن الکریم،:

{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ }. الآیة [النساء: 11].

السراجي فی المیراث (25):

أحوال الأخوات لأب وأم: وأما للأخوات لأب وأم فأحوال خمس: النصف للواحدة، والثلثان للاثنتین فصاعدة، ومع الأخ لأب وأم للذکر مثل حظ الأنثیین….. الخ

السراجی فی المیراث (38-35):

العصبات النسبیة ثلاثة: عصبة بنفسه، وعصبة بغیره، وعصبة مع غیره. أما العصبة بنفسه فکل ذکر لا تدخل فی نسبته إلی المیت أنثی، وهم أربعة أصناف: جزء المیت، و أصله، وجزء أبیه، وجزء جده، الأقرب فالأقرب، یرجحون بقرب الدرجة، أعنی أولاهم بالمیراث جزء المیت ای البنون ثم بنوهم وإن سفلوا، ثم أصله أی الأب ثم الجد أی أب الأب وإن علا، ثم جزء أبیه أی الإخوة ثم بنوهم وإن سفلوا، ثم جزء جده أی الأعمام ثم بنوهم وإن سفلوا. ……… وأما العصبة بغیره فأربع من النسوة، وهن اللاتی فرضهن النصف والثلثان، یصرن عصبة بإخوتهن کما ذکرنا فی حالاتهن، ومن لا فرض لها من الإناث وأخوها عصبة لا تصیر عصبة بأخیها کالعم والعمة، المال کله للعم دون العمة. 

غنیة الناسك (505-491):

فصل في شرائط النیابة في الحج الفرض: ولإجزاء النیابة في حجة الإسلام ونحوها، کالقضاء والنذر، عشرون شرطا: الأول: وجوب الحج علی المحجوج عنه بالیسار والصحة...…. الخامس: أن یحج بمال المحجوج عنه إن أمره صریحا، والشرط کون أکثر النفقة من مال المیت……. السادس: نیة الحج عن المحجوج عنه عند الإحرام أو تعیینه قبل الشروع في الأعمال………. التاسع: تعیین المأمور المعین إن عینه الآمر بأن قال: "یحج عني فلان، لا غیره"، فإن مات فلان لم یجز حج غیره عنه. ولو لم یصرح بالمنع بأن لم یقل: "لا غیره" فمات فلان، أحجوا عنه غیره. والمراد بتعیینه منع حج غیره عنه أو الحصر بأن قال: "لایحج عني إلا فلان" لا ذکر اسمه فقط، ففي منسك الکرماني: " ولو أوصی بأن یحج عنه فلان، فأبی فلان، فدفع الوصي إلی غیره جاز، وإن لم یأب ودفع إلی غیره جاز أیضا"………... الحادي عشر: أن یحج من بلده من ثلث ماله إن أوصی بالحج عنه وأطلق، فلم یعین مالا و لا مکانا…….. الرابع عشر: أن یحرم من میقات الآمر لو أمره بالحج وأطلق عن ذکر المیقات…… فاشتراط الإحرام من المیقات إنما هو للأمر به دلالة، لا أنه شرط في نفسه، والله أعلم.

غنیة الناسك (514):

فصل في الوصیة بالحج: ولو أوصی رجلا أن یحج عنه أو قال:  "أحجوا عني" وأطلق: فلم یعین المال ولا کمیة الحج یحج عنه من ثلث ماله حجة واحدة بقدر الکفایة، حتی أن الوصي إن أعطی رجلا لیحج عنه في محمل احتاج إلی ألف ومأتین، وإن أحج راکبا لا في محمل یکفیه الألف، وکلاهما یخرج من الثلث یجب أقلهما؛ لأنه المتیقن، وما فضل فهو لورثته.

وإن عین المال بأن قال "بألف" وهو یخرج من الثلث أو قال "بثلث مالي" وأطلق عن کمیة الحج یحج عنه من جمیع ما عینه، فإن کان یبلغ حجة واحدة لزمته، وإن بلغ حججا کثیرة فالوصي بالخیار، إن شاء أحج عنه کل سنة حجة، وإن شاء أحج عنه رجالا کثیرة في سنة واحدة، وهو الأفضل.

فإن أحج الوصي واحدةً أو حججا وبقي شیئ قلیل لایفي للحج من وطنه ویفي للحج من أقرب المواقیت أو من مکة أو ما أشبه ذلك یأتي بذلك، ولایرد الباقي علی الورثة إلا إذا کان شیئا یسیرا لایحتمل الإحجاج أصلا، فیرده علی الورثة ولایحل للمأمور.  

رد المحتار (2/ 600):

مطلب شروط الحج عن الغير عشرون……………. الحادي عشر: أن يحج عنه من وطنه إن اتسع الثلث، وإلا فمن حيث يبلغ، كما سيأتي بيانه.

الفتاوى الهندية (1/ 259):

فإن لم يبين مكانا يحج عنه من وطنه عند علمائنا, وهذا إذا كان ثلث ماله يكفي للحج من وطنه، فأما إذا كان لا يكفي لذلك، فإنه يحج عنه من حيث يمكن الإحجاج عنه بثلث ماله، كذا في المحيط.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     6/شعبان المعظم 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب