03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نزدیک مسجد بننے کی وجہ سے مسجد کی وقف جگہ پرمدرسہ بنانےکا حکم
86840وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

ایک شخص نے مسجد کے لیے جگہ وقف کی اور باقاعدہ اس مسجد کی بنیاد بھی رکھ دی گئی، لیکن کچھ تنازعہ کی وجہ سے اس زیر تعمیر مسجد کے ساتھ تقریباً بیس گز کے فاصلے پر دوسرے شخص نے مسجد تعمیر کر دی، اس جگہ آبادی کم ہونے کی وجہ سے وہاں پہلے والی مسجد کی اب ضرورت نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ کیا پہلے والی مسجد کو واقف اپنے استعمال میں لا سکتا ہے یا اس جگہ کوئی مدرسہ یا اسکول بنایا جا سکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں شخصِ مذکور نے جب یہ زمین باقاعدہ مسجد كے ليے وقف كر دی اور پھر اس جگہ مسجد کی تعمیر بھی شروع کر دی تومفتی بہ قول کے مطابق  اب اس جگہ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی مالک خوداپنے استعمال میں لا سکتا ہے، البتہ شرعی مسجد (جہاں احترام کے پیشِ نظر ناپاک شخص کا جانا منع ہو اور اس میں اعتکاف درست ہو) بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کم از کم ایک مرتبہ اذان دے کر باجماعت نماز ادا کر لی جائے،  چنانچہ مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ شرعی مسجد کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"کسی جگہ کے مسجد ہونے کے لئے یہ باتیں ضروری ہیں:

(۱) واقف نے (جو صحیح طور پر زمین کا مالک تھا اور وقف کرنے کا اختیار شرعی رکھتا تھا ) اس کو مسجدیت کے لئے وقف کیا ہوا، خواہ وہ زمین خالی عن العمارۃ ہو یا عمارت میں ہو ۔

 (۲) اس کو اپنی ملک میں سے اسی طرح علیحدہ کر دیا ہو کہ کسی دوسرے شخص کا یا خود واقف کا کوئی حق متعلق نہ رہے۔

 (۳) وقف کر کے اس کو متولی کے سپرد کر دیا ہو یا واقف کی اجازت سے اس میں ایک مرتبہ نماز باجماعت ادا کر لی گئی ہو۔"  (کفایت المفتی:61/7، کذا فی فتاوی دارالعلوم زکریا:674/4)

لہذا مذکورہ صورت میں  اگر ابھی تک لوگوں نےوہاں اذان دے کر باجماعت نماز ادا نہیں کی تو اس صورت میں اگرچہ یہ جگہ مسجد کے لیے وقف ہو چکی ہے اور اس کی خریدوخت وغیرہ جائز نہیں، لیکن اس کا حکم شرعی مسجد والا نہیں ہو گا، بلکہ اس پر مصالح مسجد کے لیے مختص جگہ جیسے وضو خانہ وغیرہ جیسا حکم لگے گا اور اس کا ادب واحترام شرعی مسجد کی طرح لازم نہیں ہو گا، اس لیے اگر اس جگہ اب مسجد  بنانےکی بالکل ضرورت نہیں ہے تو وہاں بچوں کو قرآن وغیرہ پڑھانے کے لیے درسگاہ بنانا  درست ہے، البتہ دیوار وغیرہ پر یہ لکھ دیا جائے کہ یہ جگہ مسجد کے لیے وقف ہے، لہذا اس کو بیچنے اور اس کو مستقل طور پر مدرسہ کے نام کروانے سے پرہیز کیا جائے۔

حوالہ جات

درمختارمع ردالمحتار(6/545) دارالفكر، بيروت:

( بقوله جعلته مسجدا ) عند الثاني ( وشرط محمد ) والإمام ( الصلاة فيه)بجماعة وقال ابن عابدین تحته: قوله ( بجماعة ) لأنه لا بد من التسليم عندهما خلافا لأبي يوسف وتسليم كل شيء بحسبه ففي المقبرة بدفن واحدوفي السقاية بشربه وفي الخان بنزوله كما في الإسعاف واشتراط الجماعة لأنها المقصودة من المسجد ولذا شرط أن تكون جهرا بأذان وإقامة وإلا لم يصر مسجدا، قال الزيلعي و هذه الرواية هي الصحيحة.

الفتاوی الهندیة(4/218) دارالفكر، بيروت:

من بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه حتى يفرزه عن ملكه بطريقة ويأذن بالصلاة أما الإفراز فلأنه لا يخلص لله تعالى إلا به ...............وأما الصلاة فلأنه لا بد من التسليم عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى هكذا في البحر الرائق التسليم في المسجد أن تصلی فيه جماعة بإذنه وعن أبي حنيفة رحمه الله تعالى فيه روايتان في رواية الحسن عنه يشترط أداء الصلاة فيه بالجماعة بإذنه اثنان فصاعدا كما قال محمد رحمه الله تعالى والصحيح  رواية الحسن كذا في فتاوى قاضي خان.

بدائع الصنائع(ص:219،ج:6)کتاب الوقف،ط:دارالکتب العلمیة،بيروت:

إذا بنى رباطا أو خانا للمجتازين، أو سقاية للمسلمين، أو جعل أرضه مقبرة، لا تزول رقبة هذه الأشياء عن ملكه عند أبي حنيفة أضافه إلى ما بعد الموت أو حكم به حاكم وعندهما يزول بدون ذلك، لكن عند أبي يوسف بنفس القول، وعند محمد بواسطة التسليم وذلك بسكنى المجتازين في الرباط والخان وسقاية الناس من السقاية والدفن في المقبرة، وأجمعوا على أن من جعل داره أو أرضه مسجدا يجوز، وتزول الرقبة عن ملكه لكن عزل الطريق وإفرازه والإذن للناس بالصلاة فيه والصلاة شرط عند أبي حنيفة ومحمد، حتى كان له أن يرجع قبل ذلك، وعند أبي يوسف تزول الرقبة عن ملكه بنفس قوله: جعلته مسجدا، وليس له أن يرجع عنه على ما نذكره (وجه) قول العامة الإقتداء برسول الله صلى الله عليه وسلم والخلفاء الراشدين وعامة الصحابة - رضوان الله تعالى عليهم أجمعين - فإنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم وقف، ووقف سيدنا أبو بكر، وسيدنا عمر، وسيدنا عثمان، وسيدنا علي، وغيرهم رضي الله عنهم وأكثر الصحابة وقفوا؛ ولأن الوقف ليس إلا إزالة الملك عن الموقوف وجعله لله تعالى خالصا فأشبه الإعتاق.

رد المحتار علی الدر المختا (ص:657،ج:1، مطلب في أحكام المسجد،ط:ایج،ایم، سعید):

(و) أما (المتخذ لصلاة جنازة أو عيد) فهو (مسجد في حق جواز الإقتداء) وإن انفصل الصفوف رفقا بالناس (لا في حق غيره) به يفتى نهاية، (فحل دخوله لجنب وحائض) كفناء مسجد ورباط ومدرسة ومساجد حياض وأسواق لا قوارع. (قوله كفناء مسجد) هو المكان المتصل به ليس بينه وبينه طريق، فهو كالمتخذ لصلاة جنازة أو عيد فيما ذكر من جواز الإقتداء وحل دخول لجنب ونحوه.

محمد نعمان خالد

دادالافتاء جامعة الرشیدکراچی

6/شعبان المعظم 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب