03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فروخت کنندہ کافلیٹ پر قبضہ دینے سے پہلے فلیٹ کاکرایہ وصول کرنا
86811خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اپنا فلیٹ 24 لاکھ روپے میں فروخت کیا، جس میں ایڈوانس کی مد میں ایک لاکھ روپیہ وصول ہوگیا ہے، باقی 13 لاکھ روپے کی ادائیگی 10 فروری تک ہے، بقیہ 10لاکھ کی ادائیگی کےلئے 6 مہینہ کی مدت طے کی گئی تھی۔

صورتحال یہ ہے کہ فلیٹ کا قبضہ برضا و خوشی خریدار ابھی میرے پاس ہی ہے اور وہ فلیٹ کرایہ پر دیا ہوا ہے، کرایہ داری کا ایگریمنٹ ہوا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں اس فلیٹ کا کرایہ میرے لیے حلال ہے؟

واضح رہے کہ خریدار کو میرے کرایہ وصول کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، مشتری کہتا ہے کہ 6ماہ کا کرایہ آپ وصول کرلو باقی میں رکھ لوں گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خریدوفروخت کے معاملہ میں ایجاب وقبول مکمل ہونے کے ساتھ معاملہ حتمی ہوجاتاہے،فروخت شدہ چیزپرخریدارکاحق ثابت ہوجاتاہے اورخریدارہی ملکیت کے منافع اور فوائد کا حقدار  ہوتاہے،فروخت کرنے والے کا اس میں کوئی حق نہیں ہوتا، وہ صرف اتنا کر سکتا ہے کہ جب تک اسے پیسے وصول نہ ہوجائیں اس چیز کو اپنے پاس روکے رکھے،لہذاصورت مسئولہ میں فلیٹ فروخت کرنے کے بعد آپ کے لئے اس فلیٹ کوکرایہ پر دیکرکرایہ وصول  کرناجائزنہیں،البتہ اس کے جواز کی یہ صورت ہوسکتی ہےکہ اس کرایہ کواصل قیمت میں شمارکرکے طے شدہ قیمت سے منفی کرلیاجائے اس شرط کے ساتھ یہ کرایہ اجرت مثل(مارکیٹ میں رائج کرایہ) سے کم نہ ہو۔

حوالہ جات

فی درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (ج 2 / ص 50):

 في بيع النسيئة ليس للبائع حق حبس المبيع بل عليه أن يسلم المبيع إلى المشتري على أن يقبض الثمن وقت حلول الأجل .

أي إذا كان كل الثمن مؤجلا ( هندية ) مثلا إذا باع شخص متاعا بثمن مؤجل ولم يطلب المشتري قبض المبيع فحل أجل قبض المبيع فللمشتري أن يقبض المبيع قبل نقد الثمن وليس للبائع حبسه لاستيفاء الثمن أما إذا كان بعض الثمن حالا وبعضه مؤجلا فللبائع أن يحبس المبيع حتى يقبض الحال من الثمن .

وفی الهداية في شرح بداية المبتدي (ج 5 / ص 261):

"ومن اشترى ثوبا بدراهم فقال للبائع أمسك هذا الثوب حتى أعطيك الثمن فالثوب رهن"

وفی  رد المحتار (ج 5 / ص 292):

لا يحل له أن ينتفع بشئ منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن، لانه أذن له في الربا لانه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا، فتكون ربا، وهذا أمر عظيم.

محمد اویس

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

   ۷/شعبان ۱۴۴۶ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب