86850 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
میرے شوہر کا ڈیڑھ ماہ قبل انتقال ہو گیا ہے، انہوں نے اپنے پیچھے ایک مکان اور ایک کاروبار چھوڑا ہے، ان کے ورثاء میں بیوہ، ایک بیٹا، ایک بیٹی اور ان کے والد ہیں۔ ان کی والدہ، دادی اور نانی کا انتقال ان سے پہلے ہوچکا ہے۔ میرے شوہر مرحوم بچوں کے کپڑوں/فراک (Frock) کی رنگائی کا کام کرتے تھے، اس میں کچھ مشینری وغیرہ ہے اور پارٹیاں ہیں جو ان سے کام کراتی تھیں۔ مرحوم اپنی زندگی میں کہتے تھے کہ میرا کاروبار میرا بیٹا ہی سنبھالے گا اور ان کی بیماری میں اس کو کام سیکھنے کے لیے بھی بھیجا، سوتیلے بھائی کے کہنے پر واپسی بلا لیا۔ ترکہ میں کاروبار کے علاوہ گھر وغیرہ بھی ہے۔
ہم سب چاہتے ہیں کہ وراثت تقسیم ہو جائے، مرحوم کے والد کا اس کے ترکہ میں جو بھی حصہ بنتا ہے، وہ ہم مکان یا نقد کی صورت میں دیدے اور یہ کاروبار میرا بیٹا چلاتا رہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مرحوم کے دوسوتیلے بھائی ہیں اور ایک سوتیلی ماں ہے، اور یہ دو بھائی بھی وہی کاروبار کرتے ہیں جو میرے مرحوم شوہر کرتے تھے، اس لیے وہ کاروبار سنبھالنےکی کوشش کر رہے ہیں۔ میرے شوہر کا کاروبار الگ تھا، ان کی اس میں کوئی شرکت نہیں ہے۔ کچھ پارٹیوں، کچھ ان کے قریبی لوگوں اور کچھ مزدوروں نے ہمیں آکر بتایا بھی ہے کہ آپ کاروبار اپنے ہاتھ میں لے لیں، ورنہ یہ خاص پارٹیاں آپ کا کاروبار اپنے پاس کر لیں گی اور خراب کریں گی۔ انہوں نے مزدوروں کو بھی خراب کرنے کی بھی کوشش کی ہے، کبھی کہتے ہیں ان کو آپ پر بھروسہ نہیں ہے، کبھی تنخواہ کم کرنے کی باتیں، کبھی کچھ تو کبھی کچھ کہتے ہیں۔
مرحوم کے والد کینسر کے آخری اسٹیج پہ ہیں، بڑے بڑے ہسپتالوں نے ان کے لاعلاج ہونے کا کہہ دیا ہے، جب ہم وراثت کی تقسیم کی بات کرتے ہیں تو وہ تقسیم سے منع کرتے ہیں۔ مرض کی شدت کی وجہ سے ان کا دماغ بسااوقات پورا کام بھی نہیں کر تا، ابھی سارے فیصلے ان کا بڑا بیٹا کر رہا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ وراثت تقسیم ہو۔ مجھے خدشہ ہے کہ میرے سسر کے انتقال کے بعد ان کے حصے کے تین وارث ہوں گے اور مسائل بڑھ جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ:
(1)۔۔۔ کیا اس تمام صورتِ حال کے پیش نظر شرعا میں اپنے سسر کا حصہ ان کی رضامندی کے بغیر الگ کر کے دو لوگوں کو گواہ بنا کر ان کے ہاتھ اپنے سسر کو بھیج سکتی ہوں؟ اگر وہ اس طرح اپنا حصہ قبول
نہ کرے تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ کیا میں شرعا اپنی ذمہ داری سے بری ہو جاؤں گی؟
(2)۔۔۔ میرے مرحوم شوہر کے بیس (20) لاکھ روپے میرے سوتیلے دیور کے پاس بطور قرض ہے، جووراثت میں تقسیم ہوں گے۔ کیا ہم اس قرض کا مطالبہ کر سکتے ہیں؟ یا میں یہ رقم بطور میراث اپنے سسر کے حوالے کر سکتی ہوں؟
(3)۔۔۔ میں جب بھی وراثت کی تقسیم کی بات کرتی ہوں تو میرے سسر کی طرف سے یہ جواب آتا ہے کہ کاروباری لین دین میں لوگوں کو جو پیسے دینے ہیں، پہلے اس کو کلیئر کریں، اس کے بعد وراثت تقسیم ہوگی۔ حالانکہ چلتے ہوئے کاروبار میں ایک ہی وقت میں سب کچھ کو کلئیر کرنا ایک مشکل اور ناممکن کام سمجھا جاتا ہے۔ وہ لوگ جن کو کاروباری لین دین میں پیسے دینے ہیں، اگر وہ مرحوم کے بیٹے یا داماد کو اپنے معاملات سپرد کردیں تو مرحوم کے ذمے سے قرض منتقل ہو جائے گا؟ جبکہ بیٹا اور داماد قرض کا ذمہ لینے کو تیار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ پیسے آئے یانہ آئے، ہم قرض ادا کریں گے۔ اور کاروبار بھی ہم سنبھالیں گے؟ کاروبار میں صرف لوگوں کو پیسے دینے نہیں، ان سے لینے بھی ہیں، واجب الاداء رقم قابلِ وصولی رقم کا تقریبا ایک تہائی بھی نہیں ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
(1)۔۔۔ میراث کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اس کو حتی الامکان جلد از جلد ورثاء میں تقسیم کیا جائے، کسی معقول اور معتبر عذر کے بغیر میراث کی تقسیم میں تاخیر درست نہیں، اس سے ورثا کی حق تلفی ہونے کے ساتھ ساتھ غلط فہمیاں اور رنجشیں پیدا ہوجاتی ہیں۔دوسری بات یہ کہ وراثت میں شرعی اعتبار سے سب ورثاء کی شرکتِ ملک ثابت ہوتی ہے اور شرکتِ ملک کی تقسیم کا اصول یہ ہے کہ اگر مال تقسیم کرنے کی صورت میں سب ورثاء اپنے مال سے نفع اٹھا سکتے ہوں تو بعض ورثاء کے مطالبے پر بھی مال کو تقسیم کر دیا جائے گا اور اگر کسی وارث کو تقسیم کی وجہ سے نقصان ہو تو ایسی صورت میں زیادہ حصے والے فریق کے مطالبے پر مال تقسیم کیا جائے گا اور دوسرے فریق کے انکار کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، صاحب ہدیہ اور دیگر بعض فقہائے کرام رحمہم اللہ اس قول پر فتوی کی بھی تصریح کی ہے اور علامہ حصکفی رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق متون میں بھی یہی قول منقول ہے۔
مذکورہ صورت میں چونکہ ترکہ میں اکثر حصہ آپ لوگوں (مرحوم کی بیوہ، بیٹے اور بیٹی) کا ہےاور مرحوم کے والد کا صرف چھٹا حصہ بنتا ہے، اس لیے آپ کے سسر صاحب کا بلا وجہ میراث کی تقسیم سے انکار یا اس میں تاخیر کرنا درست نہیں اور ان کی یہ رائے شرعاً معتبر نہیں، خصوصا جبکہ اس میں مستقبل میں آپ لوگوں کو نقصان کا اندیشہ ہے، لہذاصورتِ مسئولہ میں آپ کاروبار میں موجود کپڑے رنگنے والی مشینیں اور دیگر متروکہ چیزوں کی موجودہ قیمت لگوا کرآپ لوگ مرحوم کے والد صاحب کوان کا حصۂ میراث دے سکتے ہیں، اگر آپ لوگ ان کو ان کا شرعی حصہ پورا پورا دیدیں تو آپ شرعا بری الذمہ ہوجائیں گے۔
(2)۔۔۔ جی، آپ ورثا ان سے اس رقم کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ جہاں تک یہ رقم سسر صاحب کو وراثتی حصہ کے طور پر دینے کا تعلق ہے تو اگر اس سے مراد یہ ہے کہ دیور سے لے کر سسر صاحب کو دیدیں تو یہ جائز ہے، لیکن اگر مراد یہ ہو کہ سسر صاحب سے کہیں کہ آپ اپنے حصۂ میراث کے طور پر اپنے بیٹے سے مرحوم کا یہ قرضہ وصول کرلیں تو اس کے لیے سسر صاحب کی رضامندی شرط ہوگی۔
(3)۔۔۔ واضح رہے کہ مرحوم کے ذمے جو قرض ہے وہ اس کے ترکہ سے ہی ادا کیا جائے گا، تجہیز و تکفین کے اخراجات کے بعد ترکہ سے سب سے پہلے مرحوم کے قرضے ادا کرنا لازم ہوتا ہے، اس لیے اصل طریقہ تو یہی ہے کہ پہلے مرحوم کے قرضے ادا کیے جائیں، اس کے بعد میراث کی تقسیم ہو۔ لیکن اگر یہ کاروباری قرضے ایک ساتھ ادا کرنا مشکل ہو اور قرض خواہ بھی فوری مطالبہ نہ کر رہے ہوں تو ان کی ادائیگی کے لیے کوئی مناسب طریقۂ کار طے کرنا درست ہے۔ لیکن ان قرضوں کی وجہ سے پوری میراث کی تقسیم سے انکار کرنا بہر حال درست نہیں، صحیح طریقہ یہ ہے کہ ترکہ سے مرحوم کے ذمے واجب الاداء قرضوں کو فوری ادا کر کے یا اس کے بقدر رقم منہا کر کے باقی میراث تقسیم کی جائے۔
مرحوم کا بیٹا یا داماد قرض خواہوں کے اعتماد کے لیے ذمہ داری لے سکتے ہیں، لیکن قرضوں کی ادائیگی بہر حال مرحوم کے ترکہ (جس میں لوگوں سے وصول ہونے والی رقم بھی شامل ہے) سے ہوگی۔ واضح رہے کہ مرحوم کے داماد کا مرحوم کے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں، لہٰذا وہ کاروبار سنبھالنے کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔
حوالہ جات
الهداية (3/ 5) دار احياء التراث العربي - بيروت:
الشركة ضربان: شركة أملاك وشركة عقود، فشركة الأملاك العين يرثها رجلان أو يشتريانها، فلا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بإذنه، وكل واحد منهما في نصيب صاحبه کالأجنبی.
الدر المختار (6/ 260) الناشر: دار الفكر-بيروت:
( وقسم ) المال المشترك ( بطلب أحدهم إن انتفع كل ) بحصته ( بعد القسمة، وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته ). وفي الخانية: يقسم بطلب كل، وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول، فعليها المعول.
رد المحتار (6/ 260) الناشر: دار الفكر-بيروت:
قوله ( وقسم المال المشترك ) أي الذي تجري فيه القسمة جبرا بأن كان من جنس واحد، كما مر ويأتي. قوله ( وبطلب ذي الكثير ) أي إن انتفع بحصته، وأطلقه لعلمه من المقام، ومفهومه أنه لا يقسم بطلب ذي القليل الذي لا ينتفع إذا أبى المنتفع. ووجهه كما في الهداية أن الأول منتفع، فاعتبر طلبه، والثاني متعنت، فلم يعتبر اه. ولذا لا يقسم القاضي بينهم إن تضرر الكل وإن طلبوا، كما في النهاية، وحينئذ فيأمر القاضي بالمهايأة، كما سيذكره الشارح. قوله ( وفي الخانية ) وقيل بعكس ما تقدم. قوله ( فعليها المعول ) وصرح في الهداية وشروحها بأنه الأصح، وزاد في الدرر وعليه الفتوى.
درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 422) الناشر: دار إحياء الكتب العربية:
(وقسم بطلب أحدهم إن انتفع كل بحصته وبطلب ذي الكثير فقط إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) يعني إذا انتفع كل من الشركاء بنصيبه قسم بطلب أحدهم لأن في القسمة تكميل المنفعة وكانت حتما لازما فيما يحتملها إذا طلب أحدهم، وإن انتفع أحدهم بنصيبه إذا قسم وتضرر الآخر لقلة نصيبه فإن طلب صاحب الكثير قسم، وإن طلب صاحب القليل لم يقسم كذا ذكر الخصاف وذكر الجصاص عكسه وذكر الحاكم في مختصره أن أيهما طلب القسمة قسم القاضي قال في الخانية: وهو اختيار الشيخ الإمام المعروف بخواهر زاده وعليه الفتوى. وقال في الكافي ما ذكره الخصاف أصح. وفي الذخيرة وعليه الفتوى.
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 99) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: "وهي جائزة بالديون" قال عليه الصلاة والسلام: "من أحيل على مليء فليتبع" ولأنه التزم ما يقدر على تسليمه فتصح كالكفالة، وإنما اختصت بالديون لأنها تنبئ عن النقل والتحويل، والتحويل في الدين لا في العين.
قال: "وتصح الحوالة برضا المحيل والمحتال والمحتال عليه" أما المحتال فلأن الدين حقه وهو الذي ينتقل بها والذمم متفاوتة فلا بد من رضاه.
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (4/ 3234) الناشر: دار الفكر – سوريَّة:
وتتم حوالة الدين قانوناإما باتفاق بين المدين وشخص آخر يتحمل عنه الدين، دون حاجة إلى قبول الدائن، وإما باتفاق بين الدائن وشخص آخر يتحمل قبله الدين من دون حاجة إلى قبول المدين. فإذا تمت الحوالة، جاز للمدين الجديد أن يتمسك قبل الدائن بالدفوع التي كان للمدين الأصلي أن يتمسك بها، ويضمن المدين الأصلي للدائن أن يكون المدين الجديد موسرا وقت إقرار الدائن للحوالة.
محمدنعمان خالد
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
8/شعبان المعظم/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |