86816 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
کیا بغیر عذر کے اولاد کو روکنا مکروہ ہونے کے ساتھ گناہ بھی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
زیادہ بچے پیدا کرنا مستحب اور شریعت میں پسندیدہ عمل ہے، اور اس بارے میں احادیث میں بھی ترغیب دی گئی ہے۔ لہٰذا بلا وجہ بچوں کی پیدائش کا سلسلہ روکنا پسندیدہ نہیں۔ البتہ اگر اس کی وجہ یہ ہو کہ بچوں کی پیدائش سے رزق میں کمی یا تنگی ہوگی، تو اس بنیاد پر توالد وتناسل کو روکنا بالکل بھی جائز نہیں اور اس اعتقاد کی وجہ سے بندہ گناہ گار بھی ہوگا۔ہاں، اگر عورت مزید بچوں کی ولادت کی طاقت نہ رکھتی ہو یا اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو، تو ایسی صورت میں باہمی رضامندی عارضی طور پر بچوں کی پیدائش کا سلسلہ موقوف کرنا جائز ہوگا۔
حوالہ جات
سنن أبي داو (2/ 220 ت محيي الدين عبد الحميد):
عن معقل بن يسار، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إني أصبت امرأة ذات حسب وجمال، وإنها لا تلد، أفأتزوجها، قال: «لا» ثم أتاه الثانية فنهاه، ثم أتاه الثالثة، فقال: تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم.
حاشية ابن عابدين رد المحتار ط الحلبي (3/ 175):
(والإذن في العزل) وهو الإنزال خارج الفرج (لمولى الأمة لا لها) لأن الولد حقه، وهو يفيد التقييد بالبالغة وكذا الحرة نهر.
(ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة نهر بحثا (بإذنها) لكن في الخانية أنه يباح في زماننا لفساده قال الكمال: فليعتبر عذرا مسقطا لإذنها.
محمد اسامہ فاروق
دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی
9/ شعبان/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اسامہ فاروق بن محمد طاہر فاروق | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |