86972 | طلاق کے احکام | خلع اور اس کے احکام |
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ کچھ عرصہ پہلے ایک شادی ہو گئی اور شادی کے تقریبا چار مہینے تک میاں بیوی کے تعلقات بالکل برابر رہے ،لیکن اس کے بعد ان کا جھگڑا ہو گیا ،جس کی وجہ سے عورت میکے چلی گئی اور تقریبا چار سال کا عرصہ بیت گیا۔ ان چار سالوں کے دوران لڑکے کی طرف سے اس کے والد لڑکی کو لینے کے لیے گئے ،لیکن لڑکی والے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید لڑکا کسی اور میں دلچسپی رکھتا ہے ،اس وجہ سے ہم اپنی لڑکی کو اس کے ساتھ نہیں چھوڑ رہے ۔اس دوران چار سال کا عرصہ گزر گیا اور ابھی لڑکی والوں نے عدالت میں رجوع کیا اور اندر سے پتہ نہیں کہ انہوں نے عدالت میں کیا کیا کہا ہے،لیکن عدالت نے انہیں خلع دے دی اور لڑکا عدالت میں پیش نہیں ہوا۔لڑکا کراچی میں ہے اور لڑکی خیبر پختون خوا میں ہے۔ تو اس صورت میں ابھی اس کا خلع ہو چکا ہے یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات معتبر ہونے کے لیے جانبین (عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع کےمعتبر ہونے کے لیے بھی زوجین (میاں بیوی دونوں) کی رضامندی ضروری ہے، اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر بیوی عدالت سے خلع لے لے اور عدالت اس کے حق میں یک طرفہ خلع کا فیصلہ کردے تو شرعاً ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا اور اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت نےاگر عدالت سے یک طرفہ خلع کی ڈگری حاصل کرلی یعنی شوہر کی رضا مندی اور اجازت کے بغیر خلع لے لیاتو یہ خلع معتبر نہیں ہے،نیز فسخ نکاح کی وجوہ میں سے کوئی وجہ بھی موجود نہیں ،لہذا نکاح بدستور برقرار ہے، اور مذکورہ عورت کا دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔
حوالہ جات
قال العلامة الكا ساني رحمه الله:وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول . (بدائع الصنائع : 3/ 145)
قال ابن عابدین رحمه الله :في التتارخانية وغيرها: مطلق لفظ الخلع محمول على الطلاق بعوض؛ حتى لو قال لغيره اخلع امرأتي فخلعها بلا عوض لا يصح (قوله: أو اختلعي إلخ) إذا قال لها اخلعي نفسك فهو على أربعة أوجه: إما أن يقول بكذا فخلعت يصح وإن لم يقل الزوج بعده: أجزت، أو قبلت على المختار؛ وإما أن يقول بمال ولم يقدره، أو بما شئت فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده. (حاشية ابن عابدين : 3/ 440)
«المسألة الثالثة: وأما ما يرجع إلى الحال التي يجوز فيها الخلع من التي لا يجوز: فإن الجمهور على أن الخلع جائز مع التراضي إذا لم يكن سبب رضاها بما تعطيه إضراره بها.
والأصل في ذلك قوله تعالى: {ولا تعضلوهن لتذهبوا ببعض ما آتيتموهن إلا أن يأتين بفاحشة مبينة} [النساء: 19] وقوله تعالى: {فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229] . (بداية المجتهد ونهاية المقتصد: 3/ 90)
محمد اسماعیل بن محمداقبال
دارالافتاء جا معۃ الرشید کراچی
28/شعبان المعظم 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اسماعیل بن محمد اقبال | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |