| 86956 | فیصلوں کے مسائل | ثالثی کے احکام |
سوال
دو بھائیوں کے درمیان دو کمپنیوں پر مشتمل موروثی کاروبار کی تقسیم اور لین دین کا تنازع چل رہا ہے۔ دونوں اچھے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور شریعت پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں فریق روایتی سلجھے ہوئے خاندانی پس منظر کی وجہ سے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور آپس میں حتی الامکان الجھنے سے گریزاں ہیں۔ اس لیے انہوں نے عدالتی معاملات میں پڑنے کے بجائے ثالثی کے طریقے کو اختیار کیا۔
اس سلسلے میں انہوں نے اپنی برادری کی ایک قابل اعتماد کاروباری شخصیت سے رابطہ کیا اور ان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک ثالثی پینل بنانے کی درخواست دی۔ اس پینل میں قانون جاننے والے اور کاروباری تنازعات کو حل کرنے کا تجربہ رکھنے والے دو مزید حضرات بھی شامل کیے گئے ہیں ،نیز مصالحتی عمل کو سمجھنے والے ایک عالم کو بھی شرعی امور میں مشاورت کے لیے ساتھ رکھا گیا ہے۔کمیٹی کو ان دونوں بھائیوں کی طرف سے ایک ڈیکلریشن بھی دیا گیا ہے، جس میں انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ثالثی کمیٹی مکمل اہل اور با اختیار ہے اور وہ جو فیصلہ کرے گی، ان کو من وعن تسلیم ہوگا۔
یاد رہے کہ کاروباری تنازع کے حل کے لیے یہ دونوں بھائی باہمی طور پر 2014 میں بھی بیٹھے تھے اور ایک حساب پر دونوں نے اتفاق کیا تھا۔پھر 2015 میں اپنے بہنوئی کی رہنمائی میں کچھ اشکالات کو رفع کرنے کے لیے یہ دوبارہ بھی بیٹھے تھے، جس میں حسابات کی ادائیگی میں 37 لاکھ کا فرق آرہا تھا،تا ہم بہنوئی صاحب کی ہدایت کے مطابق اس 37 لاکھ کے ادائیگی کو بھی معاف کر کے پرچہ پھاڑ دیا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ اب کسی کا کسی کی طرف لینا دینا باقی نہیں۔
یہ دونوں باتیں دونوں فریق تسلیم کرتے ہیں۔
تاہم بعد میں یہ بات غالباً فیملی ممبرز کے توجہ دلانے پر دوبارہ اٹھی کہ کاروبار کی تقسیم کے وقت دونوں کمپنیوں کی گڈول نہیں لگائی گئی تھی، لہذا اسے شامل کرکے نئی تقسیم کی جائے۔
نیز یہ بھی کہا گیا کہ 2014 سے پہلے کے مختلف معاملات میں شرعی لحاظ سے کوتاہیاں بھی پائی جاتی ہیں، لہذا ان کو بھی از سر نو دیکھنا چاہیے:
مثلا چھوٹے بھائی کا دعوی ہے کہ بڑے بھائی نے اپنی صوابدید پر اپنی اہلیہ کی رقم کاروبار کے نفع بخش حصے میں لگائی اور انہیں نفع دیا، لیکن دوسری طرف چھوٹے بھائی کی میراث کے فلیٹ کو بلااجازت بیچا اور حاصل ہونے والی رقم کاروبار میں لگائی، لیکن انہیں اہلیہ کی طرح نفع نہیں دیا اوربعد میں وہ کاروباری نقصان کی وجہ سے واپس بھی نہ مل سکی۔ ان کا مطالبہ ہے یہ رقم عام کاروبار کا سرمایہ نہ تھا، لہذا بڑے بھائی کو اختیار نہیں تھا کہ وہ اسے کاروبار میں شامل کریں،لہذا یہ 2014 کی تقسیم اور 2015 کی مصالحت کا حصہ نہیں بن سکتا۔ دوسری طرف بڑے بھائی کا کہنا ہے کہ بڑے بھائی کی حیثیت سے اور خاندانی عرف کے مطابق وہ با اختیار تھے، لہذا انہوں نے اپنے اختیار کے مطابق چھوٹے بھائی کی وراثت کے فلیٹ کو بیچا اور کاروبار میں رقم لگا لی۔ اب اگر چھوٹے بھائی چاہیں تو الگ سے وراثت کے پیسے لے لیں، لیکن پھر کمپنی کے حساب میں بھی اتنا ہی منہا کرنا پڑے گا اور چاہیں تو وہ اسی حساب کو قبول کر لیں۔یہ ایک مثال ہے، ورنہ اسی طرح دونوں طرف سے کچھ دیگر امور بھی اٹھائے گئے ہیں۔
یہ بھی مد نظر رہے کہ سابقہ زمانے کے سرمایہ کاری کے معاہدے، درست حسابات اور اکاؤنٹنگ سٹیٹمنٹس دستیاب نہیں ہیں۔ دونوں فریق کمیٹی کے بارہا طلب کرنے کے باوجود اپنے دعوؤں پر ثبوت فراہم نہیں کر پائے اور اب بھی ان کے ثبوت لانے کے امکانات نہیں ہیں۔ایسی صورتحال میں کمیٹی 2015 سے پہلے کے معاملات میں بینہ اور ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے سے عاجز ہے اور تخمینی فیصلے کو ہم اپنے لیے مناسب نہیں سمجھتے۔
تاہم کمیٹی کے ارکان باہمی مشاورت سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر سابقہ معاملات میں کچھ اونچ نیچ ہوئی بھی ہو تو 2014 کا معاہدہ اور 2015 کی مصالحت کے بعد اسے مزید کریدنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی، کیونکہ اس مصالحت کو تسلیم کرنے کے بعد دونوں فریق 2014 سے پہلے کے کسی معاملے میں ایک دوسرے کو کسی ادائیگی کے پابند نہیں رہے۔
آپ سے درخواست ہے کہ آپ کمیٹی کی اس رائے پر شرعی بنیادوں پر رہنمائی فراہم کریں ،تاکہ ہم پورے اعتماد سے یہ فیصلہ کرسکیں۔نیز اگر آپ کی جانب سے پرانے معاملات کو کھولنا ضروری قرار دیا جائے تو اس پر بھی رائے دیجئے کہ پھر شرعاً کمیٹی کو کیا طریقہ اختیار کرنا ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہےکہ جب دوفریق باہمی رضامندی سے کسی ثالث آدمی یاکمیٹی کوازراہ مصالحت مشترکہ جائیدادکی تقسیم کےلیے حَکم مقرر کر دیں اور ان کوفیصلےکا مکمل اختیار دےدیں تو ان کا فیصلہ شرعاً معتبرہوتاہے اور اسےتسلیم کرنا فریقین پر لازم ہوتا ہے۔الا یہ کہ کوئی فریق مضبوط شہادتوں اور ٹھوس ثبوتوں سے اس فیصلے میں کوئی واضح غلطی یا ناانصافی ثابت کرے تو پھر ثالث کے فیصلے پر نظرثانی کی جاسکتی ہے،کیونکہ لزومِ فیصلہ کےلیے عدل شرط ہے،اگر قاضی بھی اس شرط کے بغیر فیصلہ کردےاور غبن فاحش ظاہر ہوجائےتو تقسیم کو فسخ کیا جاسکتاہے۔حَکم کے فیصلے میں واضح غبن ثالثی پینل میں موجود کاروباری تنازعات حل کرنے میں ماہر حضرات بتاسکتےہیں ۔
صورتِ مسئولہ میں بھائیوں کی طرف سے دونوں کمپنیوں کی تقسیم اور لین دین کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے بہنوئی کو اختیار دیا گیا تھا، اور اب بھی فریقین بہنوئی کے مصالحتی فیصلے (2015 کا)کو تسلیم کرتے ہیں۔ نیز سابقہ سرمایہ کاری کے معاہدے، درست حسابات اور دستاویزات دستیاب نہیں ہیں، اور دونوں فریق کمیٹی کے بارہا طلب کرنے کے باوجود اپنے دعوؤں پر ثبوت فراہم کرنے سے بھی قاصر رہے ،اسی لیے چھوٹے بھائی کا سابقہ امور (مثلاً فلیٹ وغیرہ) کو دوبارہ چھیڑنا اور اسے مذکورہ مصالحتی فیصلے سے خارج قرار دینابغیر کسی ٹھوس ثبوت کے، ایک بااختیار حَکم کے فیصلے سے اعراض کرنا ہے، جو کہ جائز نہیں۔نیز جب بڑے بھائی نے سارا کاروبار چھوٹے بھائی کی اجازت سےسنبھالاتھااور مذکورہ فلیٹ کی فروخت اور اس کی رقم کوکاروبار کا حصہ بنانے کا عمل بھی چھوٹے بھائی کے سامنے کیااور اس وقت اس نے اس کو برقرار رکھاتو یہ اس کی طرف سے اجازت ہی ہے۔
جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اگرکوئی فریق ٹھوس ثبوتوں سے سابقہ فیصلےمیں واضح ناانصافی ثابت کرے یا عرف کے مطابق حَکم کے فیصلے میں واضح غبن ثابت ہوجائےتوکمیٹی کو چاہیے کہ تقسیم کو منصفانہ بنانے کی حد تک سابقہ فیصلے کا اعتبار نہ کرے اور گواہی یا پھر قسم کی بنیاد پر نیا فیصلہ کرے۔اوراگر کوئی فریق ناانصافی ثابت نہیں کرسکتاہےجس طرح سوال میں بھی یہی تحریرہے تو ثالثی کمیٹی کا سابقہ امور کوکریدنے سے گریز کرتے ہوئے ((2014کا معاہدہ اور ((2015کی مصالحت کو برقرا رکھنا درست فیصلہ ہے۔
حوالہ جات
ماخذہ:التبویب،فتویٰ:85238،فتویٰ:84736
قال العلامۃ شمس الأئمة السرخسي رحمہ اللہ:باب دعوى الغلط في القسمة:(قال رحمه اللہ: وإذااقتسم القوم أرضاميراثابينهم أوشراءوتقابضوا ثم ادعى أحدهم غلطا في القسمة ؛ فإنه لا يشتغل بإعادة القسمة بمجرد دعواه ) ؛لأن القسمة بعد تمامها عقد لازم، فمدعي الغلط يدعي لنفسه حق الفسخ بعد ما ظهر سبب لزوم العقد، وقوله في ذلك غير مقبول كالمشتري إذا ادعى لنفسه خيارا بسبب العيب أو الشرط، ولكن إن أقام البينة على ذلك فقد أثبت دعواه بالحجة، فتعاد القسمة بينهم حتى يستوفي كل ذي حق حقه ؛ لأن المعتبر في القسمة المعادلة وقد ثبت بالحجة أن المعادلة بينهم لم توجد.( المبسوط للسرخسي :(64/15
قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ 🙁أنكر بعض الشركاء بعد القسمة استيفاء نصيبه وشهد القاسمان بالاستيفاء) لحقه (تقبل) وإن قسما بأجر في الأصح ابن ملك (ولو شهد قاسم واحد لا) لأنه فرد.(الدرمع الرد:(264/6
وقال رحمہ اللہ:(ولو ادعى أحدهم أن من نصيبه شيئا) وقع (في يد صاحبه غلطا وقد) كان (أقر بالاستيفاء) أو لم يقر به ذكره البرجندي (لم يصدق إلا ببرهان) أو إقرار الخصم أو نكوله.(الدرمع الرد:(264/6
جمیل الرحمٰن بن محمد ہاشم
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
28شعبان المعظم1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | جمیل الرحمٰن ولدِ محمد ہاشم | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |


