86993 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
مرحوم نے اپنا ذاتی گھر اپنی زندگی میں اولاد میں سے ایک بیٹےکے نام کردیاتھا ،اب باقی اولاد کو اس پر اعتراض ہے، تو کیا اس کی تقسیم دوبارہ ممکن ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ صورت میں صرف بیٹے کےنام کرنے سے وہ مالک نہیں بنتا ۔البتہ اگر مرحوم نے بالغ بیٹے کو ہبہ کرنے کےساتھ ساتھ قبضہ بھی دیا تھا تب تو ہبہ تام ہوگیا ہے،چنانچہ اس گھر میں دیگرورثاءاپنےحصےکامطالبہ نہیں کرسکتے۔
اوراگرمرحوم نےصرف نام کیا تھا بیٹے کو قبضہ نہیں دیا تھا توپھراس ہبہ کا کوئی اعتبار نہیں ۔ وہ بیٹا اس کا مالک متصور نہیں ہو گا اور والد کے انتقال کے وقت جو زندہ ورثاء موجود تھے،وہ سب اس میں شریک ہوں گے۔
حوالہ جات
في الفتاوی الھندیۃ:ولایتمّ حکم الھبة الّا مقبوضة و یستوی فیه الأجنبی و الولد إذا کان بالغا ،ھٰکذا فی محیط البرھانی .(الفتاوی الھندیۃ:4/377)
قال العلامۃ منلا خسرو رحمہ اللہ : نقل في الذخيرة عن المنتقى عن أبي يوسف لا يجوز للرجل أن يهب من امرأته وأن تهب لزوجها أو الأجنبي دارا وهما ساكنان فيها وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة على الدار.(درر الحكام شرح غرر الأحكام:2/ 220)
قال العلامۃ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالی :لو قال جعلته باسمك لا يكون هبة ولهذا قال في الخلاصة لو غرس لابنه كرما إن قال جعلته لابني تكون هبة وإن قال باسم ابني لا تكون هبة) البحر الرائق:7 /285 )
قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی: (وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والاصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلا لا.
(الدر المختار ،ص:561)
وفي مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (وتتم) الهبة (بالقبض الكامل) ، ولو كان الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به لقوله عليه السلام: لا تجوز الهبة إلا مقبوضة.والمراد هنا نفي الملك لا الجواز؛ لأن جوازها بدون القبض ثابت خلافا لمالك، فإن عنده ليس القبض بشرط الهبة.
(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر:2/ 353)
شمس اللہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
2رمضان،1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | شمس اللہ بن محمد گلاب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |