87012 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | دلال اور ایجنٹ کے احکام |
سوال
میں آن لائن ایک ایپ پر کام کرتا ہوں، جس کا نام ((Yeepler ہے۔یہ کنیڈین کمپنی ہے ، اس کی ایک برانچ کراچی میں ہے۔کمپنی لوگوں کے چینلوں کو پروموٹ کرتی ہے، چینلوں کے لائکز اور سبسکرائبرز بڑھانے کے لئے ان سے ڈالر لیتی ہے۔ کمپنی یہ کام ہمیں دیتی ہے۔
کام کی تفصیل یہ ہے کہ میں ساڑھے چار ہزار روپے جمع کرکے آئی، ڈی بنالیتا ہوں اور پھر اس ایپ کے اندر مجھے کام کرنے کی اجازت مل جاتی ہے، پھر یہ لوگ مجھے روزانہ بیس ٹاسک دیتے ہیں ،جس میں میرا کام ویڈیوز کو لائک اور سبسکرائب کرنا ہوتا ہے اور مجھے ہر ٹاسک پر 20 روپے ملتے ہیں۔
1_میرے لئے ہر ٹاسک پر بیس روپے لینا جائز ہے یا نہیں؟
2_کبھی وڈیوز اشتہار کے لئے ہوتی ہے، جس میں نامحرم کو دکھایا جاتا ہے تو کیا اس قسم کے چینل کو سبسکرائب کرنا اور لائک کرکے پیسے لینا جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں مذکور کام میں مندرجہ ذیل مفاسد پائے جاتے ہیں:
1۔ یہ عقد اجارہ ہے، جس میں کرنے کا کام وڈیوز، تصاویر دیکھنا اور لائک کرنا ہے، جس میں دیکھنےوالے کو ویڈیو یا تصویر لائک کرنے کی اجرت دی جاتی ہے۔ یہ کوئی ایسی منفعت نہیں جو اصلاً مقصود ہو اور شرعاً اس کی اجرت لی جا سکے۔ اس کے برعکس یہ کام اکثر جعل سازی کے لیے استعمال ہوتا ہے، مثلاً فیس بک اور یوٹیوب چینل پر غلط طریقے سے ویورز لا کر یو ٹیوب، گوگل ایڈسینس اور اشتہار دینے والی کمپنیوں کو بھی دھوکہ دیا جاتا ہے۔ لہذا شرعاً یہ کام کرنا اور اس کی اجرت لینا درست نہیں ہے۔
2۔ یہ ویڈیوز، تصاویر وغیرہ لائک کے کام کے لیے انویسٹمنٹ کی جاتی ہے جو حقیقتاً اجارے (ملازمت) کے حق کو خریدنا ہے۔ یہ حق مجرد کی بیع ہےجو جائز نہیں،اس لئے کہ یہ انوسٹمنٹ بلا کسی عوض ادائیگی کی ایک صورت ہے اور اکل بالباطل اور رشوت کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ جائز نہیں ہے اور اس لیے اس سے اجتناب لازم ہے۔
3۔ ایک اور بڑی خرابی یہ ہے کہ اکثر اشتہارات کی ویڈیوز میں نامحرم کو دکھایا جاتا ہے جس کو دیکھنا یا لائک کر کے
تشہیر کرنا ،شرعا جائز نہیں ہے۔
مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں ان ویڈیوز اور تصاویر کے لیے انویسٹمنٹ کرنا اور انہیں دیکھنا اور لائک کرنا جائز نہیں ہے اوراس کی اجرت بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔
حوالہ جات
مجلة مجمع الفقه الإسلامي، مقالة الشيخ محمد تقي العثماني، 5/1931) ):
ومقتضى هذين التعريفين أن المال مقصور على الأعيان المادية، فلا يشمل المنافع والحقوق المجردة، ولذلك صرح الفقهاء الحنفية بعدم جواز بيع المنافع والحقوق المجردة، وقد صرحوا بأن بيع حق التعلي لا يجوز.
الدر المختار و حاشية ابن عابدين،( 6/ 4 ):
قال الحصكفي ؒ: "وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية."علق عليه ابن عابدين ؒ: "(قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء، بخلاف ما سيذكره فإنه وإن كان مقصودا للمستأجر لكنه لا نفع فيه وليس من المقاصد الشرعية، وشمل ما يقصد ولو لغيره لما سيأتي عن البحر من جواز استئجار الأرض مقيلا ومراحا، فإن مقصوده الاستئجار للزراعة مثلا، ويذكر ذلك حيلة للزومها إذا لم يمكن زرعها تأمل
زاہد خان
دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
02/ مضان 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | زاہد خان بن نظام الدین | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |