87127 | زکوة کابیان | ان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی |
سوال
کرائے پر دیے ہوئے گھر پر زکوة ہوتی ہے یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کرائے پر دیے ہوئےمکان کی مالیت پر زکوة واجب نہیں ہوتی،البتہ حاصل شدہ کرایہ میں سے جو کرایہ گھر کے اخراجات میں استعمال ہونے سے بچ جائےاور وہ رقم خودبقدرِ نصاب ہو یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کو پہنچتی ہویا دیگر اموال کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جائےتو اس میں مالک پر ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا،پھر اگر مالک پہلے سے صاحب نصاب ہو تو اس نصاب پر سال گزرنا کافی ہو گا،کرایہ پر الگ سے سال گزرنا لازم نہیں ہو گااور اگر اسی کرایہ سے مالک صاحب نصاب بنے تو نصاب کا مالک بننے کی تاریخ سے ایک پورا سال گزرنا بھی لازم ہو گا،نیز ایسے میں نصاب سے کم کرایہ کی رقم میں زکوۃ لازم نہ ہوگی۔ (ماخوذ از تبویب: 80036)
حوالہ جات
مجموعةالفتاوی (کتاب الزکوۃ:363/1) :
لو اشتری الرجل دارا أو عبداللتجارة، ثم آجره، يخرج من أن يكون للتجارة. ولو اشتری قدورامن الصفر، یمسکها ویواجرها، لا یجب فیها الزکاة، کما لا یجب فی بیوت الغلۃ، کذا في فتاویٰ قاضی خان.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 19):
فأما إذا كان له الصنفان جميعا فإن لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا.
العناية شرح الهداية (2/ 153):
الزكاة واجبة على الحر العاقل البالغ المسلم إذا ملك نصابا ملكا تاما وحال عليه الحول.
ارسلان نصیر
دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی
8/رمضان/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | راجہ ارسلان نصیر بن راجہ محمد نصیر خان | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |