87106 | خرید و فروخت کے احکام | زمین،باغات،کھیتی اور پھلوں کے احکام و مسائل |
سوال
مفتی صاحب! گزارش ہے کہ کاشتکار حضرات کو شوگر ملز والے کھاد، دوائی وغیرہ ادھار پر فروخت کرتے ہیں، جس کا ریٹ بھی پہلے سے متعین کر لیا جاتا ہے۔ تاہم، وہ کاشتکار کو ایک فارم فراہم کرتے ہیں، جس میں تحریری طور پر یہ شرط درج ہوتی ہے کہ کاشتکار مذکورہ مل کو گنا سپلائی کرے گا، اور مل ادھار پر دی گئی کھاد وغیرہ کی قیمت کی رقم اسی گنے کی قیمت سے کاٹ لے گی، جس پر کاشتکار کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح ادھار پر معاملہ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
مزید برآں، اگر کاشتکار اس شرط پر عمل نہ کرے تو شرعی حکم کیا ہوگا؟ براہِ کرم اس کی بھی وضاحت فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ صورت میں شوگر ملز والوں کے ساتھ کھاد وغیرہ کے مشروط ادھار کا معاملہ دو وجہ سے فاسد ہے۔ اول یہ کہ اس طرح کے ادھار معاملے میں بظاہر ادھار کی واپسی کی کوئی میعاد طے نہیں کی جاتی، جبکہ ادھار بیع کے جواز کے لیے میعادطےکرنا شرعاً لازم ہے۔ دوم یہ کہ اس ادھاربیع میں یہ شرط رکھی جاتی ہے کہ خریدار بعد میں فروخت کنندہ ہی کو گنا فروخت کرے گا، جو کہ شرطِ فاسد ہے۔ لہٰذا اس طریقے پر بیع کرنا شرعاً ناجائز اور گناہ ہے، اور اس کا حکم یہ ہے کہ اسے ختم کرنا لازم ہوتا ہے اور نیا معاملہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اس کا جائز متبادل یہ ہو سکتا ہے کہ ادھار کی مدت طے کی جائے اور خریدار یک طرفہ وعدہ کرے، جبکہ شوگر ملز والے صراحتاً اور واضح طور پر خریدار کو یہ اختیار دیں کہ وہ چاہے تو گنا اسی شوگر مل کو فروخت کرے، اور چاہے تو نہ کرے۔
حوالہ جات
فقہ البیوع:538/1
ويجب لصحته أن يكون الأجل معلوماً. فإن كان الأجل فيه جهالة تفضى إلى النزاع، فسد البيع. والأصل فيه قول الله سبحانه وتعالى في القرآن الكريم:
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ﴾ (سورة البقرة : 282)
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم کسی معین میعاد کے لیے ادھار کا کوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔(آسان ترجمہ قرآن:(174/1
الاختيار لتعليل المختار: (2/ 22):
باب البيع الفاسد ،وهو يفيد الملك بالقبض، ولكل واحد من المتعاقدين فسخه.
و في الحاشیۃ: (و) لهذا كان. (لكل واحد من المتعاقدين فسخه) إزالة للخبث ورفعا للفساد.
(الہدایہ 🙂48/3)
وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع.
( مجمع الانہر :63/2)
(ولو) كان البيع (بشرط لا يقتضيه العقد وفي نفع لأحد المتعاقدين) أي البائع والمشتري (أو لمبيع يستحق) النفع بأن يكون آدميا (فهو) أي هذا البيع (فاسد).
جمیل الرحمٰن بن محمد ہاشم
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
11 رمضان المبارک1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | جمیل الرحمٰن ولدِ محمد ہاشم | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |