87087 | نماز کا بیان | تراویح کابیان |
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام خواتین کے گھر سے نکل کر امام کے پیچھے تراویح پڑھنے کے بارے میں ؟ہمارے گھر میں مرد تراویح پڑھاتے ہیں ،ان کے ساتھ کچھ مرد تراویح پڑھتے ہیں، لیکن زیادہ تر ارد گرد کی خواتین تراویح پڑھنے آتی ہیں، جس کی ہم تشہیر نہیں کرتے ،جن کو معلوم ہوتا ہے خود ہی آ جاتی ہیں ،کیونکہ ہمارے گھر میں چھوٹا سا مدرسہ ہے، محلے کی بچیاں اور خواتین قرآن پاک پڑھنے آتی ہیں ،وہی تراویح پڑھنے بھی آتی ہیں ،تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے ؟ برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
عورتوں کو پنجوقتہ فرض نماز کے لیے مسجد جانے کی اجازت نہیں ہے تو تراویح کے لیے بھی اجازت نہیں ۔یہی حکم کسی مکان میں مرد کی اقتداء میں عورتوں کے جمع ہوکر تراویح پڑھنے کا ہے۔تاہم اگر نامحرم عورتوں کے ساتھ امام کی کچھ محرم عورتیں بھی ہوں یا عورتوں کے ساتھ ان کے محرم مرد بھی ہوں، اور پردے کا مکمل انتظام ہو تو باجماعت تراویح کی گنجائش ہے۔ لیکن بغیر جماعت ادا کرنا ان کے لیےاولی اور بہتر ہے،کیونکہ ان پر جماعت کی نماز نہیں۔ دوسرے درجے میں بہتر یہ ہے کہ خواتین اپنے گھر میں جماعت سے تراویح پڑھ لیا کریں ،تراویح کی جماعت میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنا اور مردوں کی جماعت میں شریک ہونا پسندیدہ نہیں۔
حوالہ جات
قال العلامة الحصكفي رحمه الله : (كما تكره إمامة الرجل لهن في بيت ليس معهن رجل غيره ولا محرم منه) كأخته (أو زوجته أو أمته، أما إذا كان معهن واحد ممن ذكر أو أمهن في المسجد لا) يكره .
(الدرالمختار :78)
محمد فیاض بن عطاءالرحمن
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
۰۹رمضان المبارک ۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد فیاض بن عطاءالرحمن | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |