87089 | زکوة کابیان | زکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان |
سوال
ہماری کمپنی ہر سال یکم رمضان کو زکوٰة کا حساب کرتی ہے، اور جو بھی واجب الادا زکوٰة بنتی ہے، اسے علیحدہ کرکے کمپنی کے مخصوص بینک اکاؤنٹ میں جمع کروا دیا جاتا ہے۔ یہ اکاؤنٹ میزان بینک کا ماہانہ منافع اکاؤنٹ ہے۔ زکوٰة کی یہ رقم سال بھر تھوڑی تھوڑی کر کے مستحقین میں تقسیم کی جاتی ہے۔
ہمیں معلوم کرنا ہے کہ جو زکوٰة کی رقم بینک میں جمع ہے اور اس پر جو ماہانہ منافع حاصل ہو رہا ہے، کیا وہ بھی زکوٰۃ کے مال میں شامل کر کے مستحقین کو ادا کرنا ضروری ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
زکوٰۃ کی رقم علیحدہ کرکے بینک میں رکھنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ زکوٰۃ دینے والے کی ملکیت سے نکلتی ہے، لہٰذا سیونگ اکاؤنٹ میں جمع کردہ زکوٰۃ کی رقم پر حاصل ہونے والا منافع بھی مالک کا ہی ہے، اسے زکوٰۃ میں شامل کرنا ضروری نہیں۔
واضح رہے کہ مفتیٰ بہ قول کے مطابق زکوٰۃ فرض ہونے کے بعد فوری طور پر ادا کرنا لازم ہے۔ البتہ بعض علماء نے اس میں ایک سال تک کی گنجائش دی ہے، یعنی اگر ایک سال سے زیادہ تاخیر کی گئی تو گناہ ہوگا۔ اسی لیے زکوٰۃ کی رقم علیحدہ کرکے فوراً مستحقینِ زکوٰۃ کو دینا چاہیے۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 170):
وتجب على الفور عند تمام الحول حتى يأثم بتأخيره من غير عذر، وفي رواية الرازي على التراخي حتى يأثم عند الموت، والأول أصح، كذا في التهذيب.
المعاییر الشرعیة، معیار الزکاة (909):
:10/2 الأصل دفع الزکاة فور وجوب أدائها، ویجوز تأخیر إخراجها – بما لا یزید لسنة – لغیبة المال، أو ربط توزیعها بجداول زمنیة، أو لمصلحة ظاهرة.
جمیل الرحمٰن بن محمد ہاشم
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
11رمضان المبارک1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | جمیل الرحمٰن ولدِ محمد ہاشم | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |