87181 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
کیا فرماتے ہیں حضرات علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ہماری بہن کو اس کے شوہر نے موبائل پر ایک کال کے دوران تین مرتبہ طلاق دی ہیں۔ ہم نے تھانے میں اس سے طلاق نامہ بھی لکھوایا ہے۔ ہماری بہن اب میکے آگئی ہے۔ ہم الحمدللہ حنفی ہیں، لیکن ہمارے بہنوی غیر مقلدین کے ایک مدرسہ الجامعہ المحمودیہ، جامع مسجد محمدی اہل حدیث، دلہ زاک روڈ یوسف آباد پشاور سے تحریر لکھوا کر لائے ہیں، جس کی رو سے وہ رجوع کرنے کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ اس تحریر کا ایک حصہ پشتو میں ہے اور دوسرا عربی میں۔ پشتو کا اردو ترجمہ یہ ہے: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الحمد للہ رب العلمین و الصلاۃ والسلام علیٰ رسولہ الامین اما بعد طلاق کے باب میں شرعی حکم یہ ہے کہ شوہر ایک ماہ کے اندر طہر میں ایک طلاق دے گا، پھر دوسرے ماہ دوسری طلاق دے گا اور تیسرے ماہ تیسری طلاق دے گا۔ اور اگر کوئی شخص ایک ساتھ تین طلاق دے دے چاہے ایک لفظ کے ساتھ ہو جیسے: انت طلاق ثلاثا، یا تین الفاظ کے ساتھ ہو جیسے: انت طالق طالق طالق، اس میں راجح قول یہ ہے کہ یہ ایک طلاق شمار ہوگی، کیونکہ یہ قران کریم کی ترتیب سے معلوم ہوتا ہے: الطلاق مرتان اور مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تین طلاق ایک شمار کی جاتی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں تین شمار کیے تھے، لیکن پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے رجوع کیا تھا، جیسا کہ ابن قیم رح نے اغاثة اللهفان میں بحوالہ ابو یعلیٰ کہا ہے اور اس پر مکمل بحث شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح نے مجموعة الفتاویٰ میں اور ابن القیم رح نے اغاثة اللهفان میں کی ہے۔ اور یہ بہت سارے صحابہ کرام سے منقول ہے اور باعتبار دلیل یہی راجح قول ہے اور اس پر بہت سارے دلائل ہیں۔ ۔ ، مفتی شوریٰ علماء اھل الحدیث عربی عبارت یہ ہیں حررہ: ابو عمر عبد المنان محمد: الحمد لله رب العالمين والصلاه والسلام على سيد المرسلين وعلى اله واصحابه اجمعين اما بعد فان الطلاق الثلاث بلفظ واحد في مجلس واحد يقع واحدة وهو منقول عن طائفه من الصحابه منهم الزبير بن العوام وعبد الرحمن بن عوف وعلي وابن مسعود وابن عباس و هو قول كثير من التابعين ومن بعدهم كطاوس ومحمد بن اسحاق وبه قال داشود الظاهري واكثر واصحابه وبعض اصحاب ابي حنيفه و مالك و احمد و انتصر له شيخ الاسلام وتلميذه ابن القيم ١. و احتجوا بقوله تعالى: الطلاق مرتان ... ان الطلاق الذي ذكره الطلاق الرجعي الذي يكون منه ... هو مرتان مرة بعد مرة ٢. و عن طاوس عن ابن عباس قال: كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر و سنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن الخطاب ان الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه المادة ... فامضاه عليهم. ٣. وعن ابي الصهباء انه قال لابن عباس: هات من هناتك ألم يكن الطلاق الثلاث على عهدي رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر واحدة؟ فقال: قد كان ذلك فلما كان في عهد عمر تتابع الناس في الطلاق فاجازه عليهم. اخوكم ابو عمر عبد المنان خادم الطلبة في جامعة المحمودية (تحریر کی کاپی منسلک ہے) اس تحریر کی وجہ سے ہمارے خاندان میں بڑی تشویش پیدا ہوئی ہے۔ برائے مہربانی تشفی بخش اور مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
تین طلاق واقع ہوجانے کے بعد کسی کا فتویٰ مان لینے سے تین طلاقیں ختم نہیں ہوجائیں گی؛ اس لیے کہ چاروں ائمہ کرام کے ہاں تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں، ایک نہیں، سعودی عرب کے کی عدالت اور وہاں کے مفتیانِ کرام کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں۔ اب اگر آپ اسی حالت میں اپنی بہن کو اس کے شوہر کے حوالے کریں گے تو گناہ ہی ہوگا۔حدیثِ مبارک کا مفہوم ہے کہ قیامت کے قریب ایسا بھی ہوگا کہ لوگ اپنی بیویوں سے زنا کریں گے،یعنی بیوی کو طلاق دینے کے باوجود اس سے خواہش پوری کریں گے۔ نیز فقہائے کرام نے ایسے لوگوں کے بارے میں جو محض اپنی غرض کو پورا کرنے کے لیے مسلک بدلتے ہیں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ موت کے وقت ان کے ایمان کے فوت ہو جانے کا خطرہ ہے۔
حوالہ جات
قال نور الدين الهيثمي: قلت: أبا عبد الرحمن! وهم مسلمون؟ قال: نعم، [قل أبا عبد الرحمن! والقرآن بين ظهرانيهم؟ قال: نعم]. قلت: أبا عبد الرحمن! وأنى ذلك؟ قال: يأتي على الناس زمان يطلق الرجل المرأة، ثم يجحدها طلاقها فيقيم على فرجها، فهما زانيان ما أقاما.)مجمع البحرين في زوائد المعجمين الأوسط والصغير للطبراني: 7/ 302)
قال بابن عابدين :(قوله ارتحل إلى مذهب الشافعي يعزر) أي إذا كان ارتحاله لا لغرض محمود شرعا، لما في التتارخانية: حكي أن رجلا من أصحاب أبي حنيفة خطب إلى رجل من أصحاب الحديث ابنته في عهد أبي بكر الجوزجاني فأبى إلا أن يترك مذهبه فيقرأ خلف الإمام، ويرفع يديه عند الانحطاط ونحو ذلك فأجابه فزوجه، فقال الشيخ بعدما سئل عن هذه وأطرق رأسه: النكاح جائز ولكن أخاف عليه أن يذهب إيمانه وقت النزع؛ لأنه استخف بمذهبه الذي هو حق عنده وتركه لأجل جيفة منتنة»... أما انتقال غيره من غير دليل بل لما يرغب من عرض الدنيا وشهوتها فهو المذموم الآثم المستوجب للتأديب والتعزير لارتكابه المنكر في الدين واستخفافه بدينه ومذهبه اهـ ملخصا.)حاشية ابن عابدين: 4/ 80)
محمد اسماعیل بن محمداقبال
دارالافتاء جا معۃ الرشید کراچی
16/ رمضان المبارک 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اسماعیل بن محمد اقبال | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |