87231 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ:
محلے کی مسجد میں اے سی کے لیے کنڈا لگاناکیسا ہے ؟اوراگر اس میں امامِ مسجد اور مؤذن دونوں شامل ہوں تو کیا ان کے پیچھے نماز ہو جائے گی ؟
اسی طرح اگر اس میں تبلیغی جماعت کے لوگ بھی شامل ہوں تو کیا انکے ساتھ دین کی محنت ( تعلیم ، گشت وغیرہ ) میں شریک ہونا ٹھیک ہے ؟
اورایسی مسجد میں نماز کے لیے جانا درست بھی ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کنڈا لگا کر بجلی کا استعمال کرنا ناجائز ہے ، چاہے مسجد کے لیے ہو یا کسی اور جگہ کے لیے، مسجد کی کمیٹی اور اہل محلہ کو چاہیے کہ چوری کی بجلی ختم کروا کر قانونی بجلی حاصل کریں۔ایسی مسجد میں نماز کے لئے جانا تو درست ہے ،تاہم متولی مسجد کو چاہئے کہ بقدر ضرورت بجلی استعمال کریں اور اس کا بل ادا کریں، وسعت سے زیادہ بجلی استعمال نہ کریں کہ بل کے ادا کرنے میں بوجھ ہو،نمازیوں کو چاہئےکہ متولی مسجد کو اس کا پابند کریں کہ مسجد میں صحیح طریقہ سے بجلی کا انتظام کرے، اگر صحیح مشورہ دینے اور غلط کام سے بچنے کی تاکید کرنے کے باوجود متولی چوری کی بجلی سے نہیں بچتا تو گناہ اسی کو ہوگا۔
اگر واقعتاً مسجد کے پیش امام بجلی چوری کے گناہ کے مرتکب ہیں تو ان کی اقتداء میں اس وقت تک نماز پڑھنا مکروہ ہے جب تک کہ وہ اپنے اس گناہ پر صدقِ دل سے توبہ نہ کرلیں اور یہ کہ اس دوران جتنی بجلی صرف کی ہے اس کا واقعی بل جمع نہ کرادیں ،لہٰذا امام موصوف پر لازم ہے کہ مذکور ناجائز عمل سے احتراز کر کے اس کی تلافی کی صورت اپنائے تاکہ اس کی اقتداء میں بلا کراہت نماز ارا ہو سکے۔
تبلیغی جماعت کے ساتھیوں کے لئے بھی یہی حکم ہے ،البتہ ان کے ساتھ تبلیغی امور میں شریک ہونا درست ہے کیونکہ دونوں عمل بالکل الگ الگ ہیں ،ایک کا گناہ اور ایک کا ثواب ملے گا۔
حوالہ جات
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (1/ 559):
(ويكره) تنزيها (إمامة عبد)... (وأعرابي) ومثله تركمان وأكراد وعامي (وفاسق وأعمى) قال ابن عابدين : قوله وفاسق) من الفسق: وهو الخروج عن الاستقامة، ولعل المراد به من يرتكب الكبائر كشارب الخمر، والزاني وآكل الربا ونحو ذلك، كذا في البرجندي إسماعيل.وفي المعراج قال أصحابنا: لا ينبغي أن يقتدي بالفاسق إلا في الجمعة لأنه في غيرها يجد إماما غيره. اهـ. قال في الفتح وعليه فيكره في الجمعة إذا تعددت إقامتها في المصر على قول محمد المفتى به لأنه بسبيل إلى التحول... وأما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه، وبأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، وقد وجب عليهم إهانته شرعا، ولا يخفى أنه إذا كان أعلم من غيره لا تزول العلة، فإنه لا يؤمن أن يصلي بهم بغير طهارة فهو كالمبتدع تكره إمامته بكل حال، بل مشى في شرح المنية على أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لما ذكرنا قال: ولذا لم تجز الصلاة خلفه أصلا عند مالك ورواية عن أحمد، فلذا حاول الشارح في عبارة المصنف وحمل الاستثناء على غير الفاسق، والله أعلم.
الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية (1/ 109):
الصلاة في أرض مغصوبة جائزة ولكن يعاقب بظلمه فما كان بينه وبين الله تعالى يثاب وما كان بينه وبين العباد يعاقب.
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (6/ 200):
لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته۔
محمد اسماعیل بن اعظم خان
دا الافتا ء جامعہ الرشید ،کراچی
11/شوال /6144ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اسماعیل بن اعظم خان | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |