03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بہنوں اور بھتیجوں میں تقسیم میراث
87262میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ” ایک خاتون جو کہ غیر شادی شدہ تھی ،اس کی وفات ہو گئی اور اب اس کے ورثاء میں درج ذیل افراد موجود ہیں :

-1 تین بہنیں ۔

-2 تین بھائی جو کہ مرحومہ کی زندگی ہی میں وفات پاگئے تھے ،البتہ ان بھائیوں کی اولاد مرحومہ کی وفات کے وقت موجود تھے، جن میں سے پہلے بھائی کے سات (7) بیٹے، دوسرے کی دو (2) بیٹیاں اور تیسرے کا ایک (1) بیٹا اور ایک (1) بیٹی شامل ہیں ۔ یعنی اب ورثاء میں صرف تین بہنیں،آٹھ بھتیجے اور تین بھتیجیاں  ہیں ،اس کے علاوہ کوئی وارث موجود نہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ  مرحومہ نے وصیت بھی کی ہوئی ہے، برائے مہربانی درج بالا مسئلہ میں شرعی طریقہ پر تقسیم میراث فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ميت كے ترکہ میں سے  سب سے پہلے کفن دفن کے مناسب اخراجات )اگركسی وارث نے یہ خرچہ بطورتبرع نہ کیا ہو(نکالے جائیں گے، اس کے بعد  مرحوم کے ذمہ واجب  قرض کی ادائیگی کی جائے گی، چونکہ مرحومہ نے وصیت کی ہے،لہٰذاترکہ کی ایک تہائی (1/3) تک اس کی وصیت  پر عمل کیا جائے گا۔ اس کے بعدباقی ماندہ ترکہ (نقدی، چھوٹابڑا سازوسامان اور جائیداد) مرحومہ کےورثہ میں تقسیم کیا جائے گا،اگر انتقال کے وقت صرف یہی لوگ ہوں جوسوال میں مذکورہیں ،تو ترکہ کے کل72  حصے بنیں گے جن میں سے   ہر بہن کو سولہ (16) حصے  ملیں  گے اور ہر بھتیجے کو تین حصے ملے گے ،بھتیجوں کی موجودگی کی بناء پرمیت کی بھتیجیاں( محجوب) محروم ہوں گی،ان کا میراث میں حصہ نہ ہو گا۔

جبکہ فیصدی لحاظ سے ہر بہن  کو22.22% ،ہر بھتیجے کو4.1666% فیصد حصہ ملے گا،نقشہ درج ذیل ہے۔

نمبرشمار

ورثاء

عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بہن

16

22.22%

2

بہن

16

22.22%

3

بہن

16

22.22%

4

بھتیجا

3

4.1666%

5

بھتیجا

3

4.1666%

6

بھتیجا

3

4.1666%

7

بھتیجا

3

4.1666%

8

بھتیجا

3

4.1666%

9

بھتیجا

3

4.1666%

10

بھتیجا

3

4.1666%

11

بھتیجا

3

4.1666%

حوالہ جات

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص765):

قلت: وفي إطلاقه نظر ظاهر لتصريحهم بأن ابن الاخ ‌لا ‌يعصب ‌أخته، كالعم ‌لا ‌يعصب ‌أخته وابن العم ‌لا ‌يعصب ‌أخته وابن المعتق ‌لا ‌يعصب ‌أخته، بل المال للذكر دون الانثى لانها من ذوي الارحام.

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 242):

ولا يرث مع ذي سهم وعصبة سوى أحد الزوجين لعدم الرد عليهما) أي ‌لا ‌يرث ‌ذوو ‌الأرحام مع وجود ذي فرض أو عصبة إلا إذا كان صاحب الفرض أحد الزوجين فيرثون معه لعدم الرد عليه لأن العصبة أولى منه.

الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية (6/ 451):

فالعصبةنوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف: جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا، ‌ثم ‌الأخ ‌لأب ‌وأم، ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأب وأم ثم عم الأب لأب ثم ابن عم الأب لأب وأم، ثم ابن عم الأب لأب ثم عم الجد، هكذا في المبسوط.وإذا اجتمع جماعة من العصبة في درجة واحدة يقسم المال عليهم باعتبار أبدانهم لا باعتبار أصولهم مثاله ابن أخ وعشرة بني أخ آخر أو ابن عم وعشرة بني عم آخر المال بينهم على أحد عشر سهما لكل واحد سهم.

محمد اسماعیل بن اعظم خان

دا الافتا ء جامعہ الرشید ،کراچی

11/شوال /6144ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اسماعیل بن اعظم خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب