87248 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | دلال اور ایجنٹ کے احکام |
سوال
ایک شخص اسٹیٹ ایجنسی والے سے کہتاہے کہ میرا پلاٹ چار لاكھ میں بكوا دیں، اس سے زیادہ جتنے میں بھی بكے گا، اضافی رقم آپ کی ہے،اس طرح کامعاملہ شرعا جائز ہےیا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
یہ اجرت دلال ہے، جس کےلیےمقدار یا تناسب کے لحاظ سے تعیین ضروری ہے،لہذاسؤال میں مذکور معاملہ میں اجرت کے مجہول اور غیر متعین ہونے کے باعث یہ معاملہ تو ناجائز ہے، البتہ اگر کچھ تھوڑی سی اجرت لم سم طے کر کے یہ طے ہوکہ یہ لم سم اجرت بھی دونگا اور اس حدسے زیادہ جو قیمت فروخت ہوگی وہ بھی دونگا تو پھر یہ معاملہ جائز ہوجائے گا۔
حوالہ جات
حاشية رد المحتار - (ج 6 / ص 348)
مطلب في أجرة الدلال تتمة: قال في التاترخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم.
وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به، وإن كان في الاصل فاسدا لكثرة التعامل، وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام.
نواب الدین
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
۱۸شوال۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | نواب الدین | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |