87250 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں
ایک عورت کا انتقال ہوگیا،اس کے ورثہ میں ایک بیٹی،شوہر اور بہن بھائی ہے،اس کے ترکہ میں سے آدھا بیٹی کو،چوتھا حصہ شوہر کو،اور چوتھا حصہ بہن بھائیوں میں تقسیم ہوا،بیٹی شادی شدہ ہے،بیٹی کے والد اور شوہر کی شروع سے ہی آپس میں نہیں بنتی،والد نے سوچا کہ میں اپنا حصہ اور رشتہ داروں یعنی خالہ اور ماموں کا حصہ بھی بیٹی کو دیدوں ،شاید آپس میں یعنی بیٹی اور داماد کے ساتھ تعلقات بہتر ہوجائیں ،خالاوں کا حصہ والد نے دیدیا،یعنی ان کے حصے کی رقم دیدی ،اور ماموں کا ابھی رہتا ہے، اس آدمی کے مالی حالات بہت خراب ہوگئے ،50لاکھ سے اوپر کا مقروض ہوگیا،بیٹی سے کہا، وہ بھی اپنا حصہ جو والد نے دینے کو کہا تھا ،چھوڑنے کے لیے تیار نہیں،اب بیٹی باپ کے گھر نہیں آتی اور باپ بیٹی کے گھر نہیں جاتا،والد کہتا ہے کہ میں آپ کو اپنا اور خالاوں والا حصہ نہیں دے سکتا ،آپ ماں کے ترکہ میں صرف اپنا آدھا حصہ ہی لیں گی،کیا اب والد ایسا کرسکتاہے جبکہ قبضہ باپ کے پاس ہے؟نیز باپ نے بیٹی کو دینے کا کہا تھا،دیا کچھ نہیں ،اور یہ بات بیٹی کے ماموں اور خالاوں کے سامنے کہی تھی۔
نوٹ:سائل سے معلوم ہوا ہے کہ 120 گز کا مکان ہے،جو دوپورشن پر مشتمل ہے،جس وقت والد نے بیٹی کو مکان دینے کا کہاتھا اس وقت وہ اوپر پورشن میں رہائش پذیر تھی،جبکہ والد نیچے پورشن میں،نیز دوسرا الگ گھر بھی ہبہ کرنے کا کہا تھا،جس کا کرایہ بیٹی کو دیتاتھا،والد کا بیان یہ ہے کہ انہوں نے ہبہ نہیں کیا ہے،بلکہ یہ کہا تھا کہ دیدوں گا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر والد کی بات حقیقت کے مطابق ہے کہ اس نے ابھی تک اپنا اور ماموں وخالاؤں کا حصہ بیٹی کو ہدیہ نہیں کیا ہے ،اور مستقبل میں دینے کا ارادہ تھا،تو ان کے حصے بیٹی کی ملکیت میں نہیں آئے،لہذا بیٹی کو ان کاحصہ دے کر بقیہ دیگر ورثہ کو دیدے۔
حوالہ جات
سید نوید اللہ
دارالافتاء،جامعۃ الرشید
22/ شوال 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید نوید اللہ | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |