03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
الفاظِ کنایہ سے وقوع طلاق کا حکم
87292طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

میرا  نکاح دسمبر 2019میں ہوا ، شوہر مار پیٹ  کرتےتھےاور ان کے گھر والوں کا رویہ بھی توہین آمیز تھا۔ شادی کے چار ماہ بعد شوہر نے  مجھے گھر سے نکال دیا ، میکے آنے کے بعد شوہر جرگہ وغیرہ کے لئے بھی رضامند نہ تھے، پھر  میں نے جولائی 2020میں عدالت میں کیس دائر کیا،  میرے  سمجھانے (بذریعہ موبائل) اور عدالتی نوٹس کے باوجود  نہ تو شوہر  مجھے  لینے آئے اور نہ ہی عدالت  میں حاضر ہوے، بلکہ میسج کیا کہ"میں لینے نہیں آؤں گا اور اگر  تم عدالت گئی تو مجھ پر حرام ہو گی اور  پھر میری طرف سے فارغ ہو، پھر ساری عمر میرے بھائیوں کی بیویوں کی طرح عدالت کے چکر کاٹنااور جس دن تم عدالت گئی اس دن سے تم مجھ پر حرام ہو گی۔" جب میں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی تو پھر یہی بولا کہ " میں اب بھی اس بات پر قائم ہوں کہ اگر تم عدالت گئی تومجھ پر حرام ہو۔" میرے پا س ان میسجز کے ثبوت موجود ہیں۔ اس کے بعد دو ماہ تک شوہر  نے مجھے بلاک کیے رکھا ، پھر مجبورا مجھے عدالت جانا پڑا، شوہر نے مذکورہ بالا الفاظ کا اقرار  میرے علاوہ ایک اور مرد اور جج صاحبہ کے سامنے بھی کیا۔

اس دوران چار سال گزر گئے ، شوہر نے مجھ سے  رجوع کیانہ  ہی ازدواجی تعلق قائم ہوا۔برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ  کیا ہمارا نکاح ختم ہو چکا ہےاور میں کسی  دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہوں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں  شوہر کی جانب سے ادا کیے گئے الفاظ "اگر تم عدالت گئی تو مجھ پر حرام ہو" کے بعد خاتون جب عدالت گئی ہیں ، تو ایک طلاق بائن واقع ہوئی  ، شوہر کی جانب سے باقی جو الفاظ ادا کیے گئے وہ پہلے ادا کیے گئے  جملے کی تاکید اور وضاحت ہیں۔

 لہذا اگر خاتون عدالت جانے کے بعد، عدت  کی مدت ( تین حیض )مکمل کر چکی ہیں تو دوسری جگہ نکاح کرنا شرعا درست ہے۔

حوالہ جات

الفتاوى الهندية(1/ 377):

ولا يلحق البائن البائن بأن قال لها أنت بائن ثم قال لها أنت بائن ‌لا ‌يقع ‌إلا طلقة واحدة بائنة لأنه يمكن جعله خبرا عن الأول وهو صادق فيه فلا حاجة إلى جعله إنشاء لأنه اقتضاء ضروري حتى لو قال عنيت به البينونة الغليظة ينبغي أن يعتبر وتثبت به الحرمة الغليظة ۔

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (3/ 280):

أقول: ولا يخالف ما في الجوهرة، لأن قوله ‌ألف ‌مرة ‌بمنزلة تكريره مرارا متعددة، والواقع به في أول مرة طلاق بائن، ففي المرة الثانية لا يقع شيء لأن البائن لا يلحق إذا أمكن جعل الثاني خبرا عن الأول، كما في أنت بائن أنت بائن كما يأتي بيانه في الكنايات، بخلاف ما إذا نوى الثلاث بأنت حرام أو بأنت بائن فإنه يصح " لأن لفظ واحدة صالح للبينونة الصغرى والكبرى۔

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (3/ 433):

فی الدر:(قال لامرأته: أنت علي حرام) ونحو ذلك كأنت معي في الحرام (إيلاء إن نوى التحريم، أو لم ينو شيئا، وظهار إن نواه، وهدر إن نوى الكذب) وذا ديانة، وأما قضاء فإيلاء قهستاني (وتطليقة بائنة) إن نوى الطلاق وثلاث إن نواها ويفتى بأنه طلاق بائن (وإن لم ينوه) لغلبة العرف.

وفی الرد: (قوله: إن نوى الطلاق) أي: أو دلت عليه الحال نهر: أي بأن كان في حال مذاكرة الطلاق۔
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (3/ 298):

والحاصل أن المتأخرين خالفوا المتقدمين في وقوع البائن بالحرام بلا نية حتى لا يصدق إذا قال لم أنو لأجل العرف الحادث في زمان المتأخرين، فيتوقف الآن وقوع البائن به على وجود العرف كما في زمانهم۔۔۔والحاصل أنه لما تعورف به الطلاق صار معناه تحريم الزوجة، وتحريمها لا يكون إلا بالبائن۔

حسن علی عباسی

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

24/شوال /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

حسن علی عباسی ولد ذوالفقار علی عباسی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب