03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نکاح پر نکاح کرانے والے سے تعلقات کاحکم
87275جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ہمارے محلے میں ایک شخص نے اپنی شادی شدہ بہن کا، جو کہ دو بچوں کی ماں ہے،  اس کے شوہر سے طلاق حاصل کیے بغیر، اپنے بھائی اور چند دیگر افراد کے تعاون سے، دوسرے علاقے میں کسی اور مرد سے نکاح کروا دیا۔ اس واقعے کی روشنی میں درج ذیل شرعی سوالات پیدا ہوتے ہیں:

1۔ بغیر طلاق کے کسی شادی شدہ عورت کا دوسرے مرد سے نکاح کروانا شرعی لحاظ سے کیسا ہے؟
2۔ ایسے افراد کے ساتھ لین دین، قربانی میں شرکت، نمازِ جماعت میں شمولیت، اور روزمرہ کے تعلقات رکھنا شریعت کی نظر میں کیسا ہے؟
3۔ ان افراد کے اپنے نکاحوں کا شرعی حکم کیا ہے؟ براہِ کرم واضح طور پر بیان فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

١۔ شرعاً، عورت جب تک اپنے شوہر کی زوجیت میں ہے (یعنی نہ اسے طلاق ہوئی ہو اور نہ شوہر کا انتقال ہوا ہو، اور عدت بھی مکمل نہ ہوئی ہو)، تو اس کا کسی دوسرے مرد سے نکاح باطل (غیر معتبر) ہے۔

۲۔ یہ افراد اگر سمجھانے کے باوجود اپنے گناہ پر اصرار کریں اور اس سے باز نہ آئیں، تو وقتی طور پر ان سے بائیکاٹ کیا جا سکتا ہے تاکہ ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ توبہ کر کے اس گناہ سے باز آ جائیں۔ تاہم، ان کے ساتھ نماز اور قربانی میں شرکت کی صورت میں  شرکت کرنے والےکی نماز اور قربانی شرعاً ہو جائے گی۔

۳۔ ان کے نکاح برقرار ہیں، البتہ یہ افراد سخت گناہگار ہیں۔ اگر وہ گناہ نہ چھوڑیں تو توبہ تک ان کا بائیکاٹ کیا جانا جائز ہے۔

حوالہ جات

وفی المبسوط - (ج 34 / ص 176)

والخامسة : منكوحة الغير أو معتدة الغير ، فإنها محرمة عليه إلى غاية وهي انقضاء العدة.

وفی رد المحتار - (ج 12 / ص 383)

أما منكوحة الغير فهي غير محل إذ لا يمكن اجتماع ملكين في آن واحد على شيء واحد.

فتح الباري لابن حجر (8/ 124)

وفيها ترك السلام على من أذنب وجواز هجره أكثر من ثلاث وأما النهي عن الهجر فوق الثلاث فمحمول على من لم يكن هجرانه شرعيا.

شرح صحيح البخارى لابن بطال (9/ 272)

قال الطبرى: وفى حديث كعب بن مالك أصل فى هجران أهل المعاصى والفسوق والبدع، ألا ترى أنه عليه السلام نهى عن كلامهم بتخلفهم عنه، ولم يكن ذلك كفرًا ولا ارتدادًا، وإنما كان معصية ركبوها، فأمر بهجرتهم حتى تاب الله عليهم، ثم أذن فى مراجعتهم، فكذلك الحق فيمن أحداث ذنبًا خالف به أمر الله ورسوله فيما لا شبهة فيه ولا تأويل، أو ركب معصية على علم أنها معصية لله أن يهجر غضبًا لله ورسوله، ولا يكلم حتى يتوب وتعلم توبته علمًا ظاهرًا كما قال فى قصة الثلاثة الذين خلفوا.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

24/شوال 1446ھ
 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب