03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عقد کی ایک صورت کا حکم( ایک شریک کے لیے مخصوص نفع کی شرط لگانا شرعاً جائز نہیں)
87289شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے  میں کہ یہ اسٹامپ جو میں نے بھیجا ہے(لف ہے)۔ یہ عقد دو فریقین کے درمیان درست ہے یا  نہیں؟ اس عقد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

تنقیح: سائل نے بذریعہ فون بتایا کہ 4500/- روپے فی لاکھ سے مراد اصل سرمایہ (جو کہ 15لاکھ ہے) کے ایک لاکھ پر 4500/- روپے ہیں(یعنی کل 67500/-روپے بنتے ہیں)  جو کہ فکس ہیں اور ہر حال میں فریق دوم کو ملیں گے چاہے نفع ہو یا نقصان ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ معاہدہ شرکت فاسدہ پر مبنی ہے، کیونکہ ایک شریک کے لیے مخصوص نفع کی شرط لگانا شرعاً جائز نہیں۔ درست طریقہ یہ ہے کہ کل منافع کو فیصد کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے اور نقصان کی صورت میں ہر شریک اپنے سرمائے کے تناسب سے ذمہ دار ہو۔ نیز تمام شرکاء کے سرمائے کا تناسب واضح ہونا ضروری ہے، جبکہ اس معاہدہ میں فریقِ اول کا سرمایہ متعین نہیں۔اسی طرح شرکت کے خاتمے پر سب سے پہلے شرکاء کو ان کی اصل سرمایہ کاری لوٹائی جائے گی، اور بچ جانے والی رقم منافع شمار ہو کر طے شدہ شرح کے مطابق تقسیم ہوگی۔ علاوہ ازیں، عقدِ شرکت کسی شریک کی وفات پر خود بخود ختم ہو جاتا ہے، اور اگر ورثاء چاہیں تو نیا معاہدہ کر کے شرکت جاری رکھ سکتے ہیں، ورثاء کو پہلے سے شرکت کا پابند بنانے کی شرط لغو ہے۔

اس وضاحت کے بعد مذکورہ شرکت کی جائز صورت یہ ہے کہ فریق اول کے اس کاروبار میں اپنے سرمائے اور فریق دوم سے لی گئی رقم کا حساب لگایا جائے کہ ان کا فیصدی تناسب کیا بن رہا ہے، پھر خدانخواستہ نقصان ہو  تو وہ نقصان اسی تناسب سے ہر فریق پر تقسیم ہوگا، البتہ نفع کی تقسیم کا ضابطہ یہ ہےکہ  نفع کی شرح باہمی رضامندی سے کچھ بھی طےکر سکتے ہیں، لیکن چونکہ  کاروبار کو صرف فریق اول سنبھال رہا ہے،توجو پارٹنر صرف سرمایہ لگا رہا ہے(یعنی فریق دوم)، اس کے ذمے کوئی کام نہیں ،تو  اس کےلیے اس کے سرمایہ  کی شرح سے زائد  نفع کی شرط لگانا جائز نہیں ،جبکہ شریک عامل (جس کے ذمے کام کرنے کی شرط لگائی گئی ہو ،یعنی فریق اول ) اس کے نفع کی شرح اس  کے سرمائے کی شرح سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع(6/ 62):

‌إذا ‌شرطا ‌الربح على قدر المالين متساويا أو متفاضلا، فلا شك أنه يجوز ويكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما والوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضلا؛ لأن الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال

الموسوعة الفقهية الكويتية (26/ 45):

وهذا الشرط موضع وفاق. وقد حكى ابن المنذر إجماع أهل العلم على أن لا شركة مع اشتراط مقدار معين من الربح - كمائة - لأحد الشريكين سواء اقتصر على اشتراط هذا المقدار المعين لأحدهما، أم جعل زيادة على النسبة المشروطة له من الربح، أم انتقص من هذه النسبة؛ لأن ذلك في الأحوال كلها قد يفضي إلى اختصاص أحدهما بالربح، وهو خلاف موضوع الشركة، أو - كما عبر الحنفية - قاطع لهاومن هذا القبيل، ما لو شرط لأحدهما ربح عين معينة أو مبهمة من أعيان الشركة - كهذا الثوب أو أحد هذين الثوبين - أو ربح سفرة كذلك - كهذه السفرة إلى باريس، أو هي أو التي تليها إلى لندن - أو ربح هذا الشهر أو هذه السنة۔

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (4/ 327):

(‌وتبطل ‌الشركة) أي شركة العقد (بموت أحدهما) علم الآخر أو لا لأنه عزل حكمي

الفتاوى الهندية (2/ 302):

وأن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة وأن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة لا معينا فإن عينا عشرة أو مائة أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة، كذا في البدائع.

ارسلان نصیر

دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی

28/شوال/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

راجہ ارسلان نصیر بن راجہ محمد نصیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب