87309 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پانچ ماہ پہلے میرا نکاح ہوا ۔ابھی رخصتی باقی تھی کہ چند اغواہ کاروں نے مجھے اغواہ کیا ،مجھ پر تشدد کیا اورمجھے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا کہا ۔میرے انکار کی صورت میں مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی تو میں مجبور ہو کر ان کے مطالبے پر راضی ہو گیا۔ میں نے تحریرا یہ لکھ دیا کہ ’’میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں‘‘، بعد میں اغواہ کاروں نے اس کے ساتھ تین طلاق کا جملہ لکھا اور مجھے کہا کہ یہ جملہ آپ بھی لکھو تو میں نے لکھ دیا کہ ’’میں اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہوں‘‘۔ اس کےبعداغواہ کاروں نے مجھے زبانی طور پر طلاق دینے کا کہا تو میں نے کہہ دیا کہ’’ میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا ہوں‘‘، ساتھ ہی انہوں نے مجھے کلما کی قسم اٹھانے کا کہا تو میں نے یہ الفاظ استعمال کیے کہ’’ میں اپنی منکوحہ کو طلاق دیتا ہوں اور جب بھی میں اس سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہو ‘‘،ساتھ ہی میں نے یہ نیت کی کہ’’ اگر کوئی دوسرا شخص میرا نکاح کرائے تو اسے طلاق نہ ہو ‘‘۔اس صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟ کیا دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگرکسی شخص کوقتل ،قیدیاغیر معمولی مار پیٹ کرنے کی دھمکی کے ذریعہ طلاق دینے پرمجبورکیاجائے تواس صورت میں اگرزبانی طورپرمکرہ (مجبورکیاگیاشخص) طلاق دے دے توطلاق واقع ہوجاتی ہے اور اگرتحریری صورت میں دےتوطلاق واقع نہیں ہوتی،لہذاصورت مسئولہ میں ’’میں اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہوں‘‘ لکھنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی لیکن جب سائل نے ایک ہی جملے میں زبان سے کہہ دیا کہ ’’ میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا ہوں‘‘، تو اس سے تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ۔ جس کے بعد اب نہ رجوع ہوسکتا ہے، نہ ہی تحلیل شرعی کے بغیر ان دونوں کا دوبارہ آپس میں نکاح ہوسکتا ہے۔تحلیل شرعی کا مطلب یہ ہے کہ عدت گزرنے کے بعد خاتون کسی اورمردسےنکاح کرے،پھروہ مردہمبستری کے بعد طلاق دیدے یافوت ہوجائے، اورعدت گزرجائے تواب یہ خاتون سابقہ شوہرسےنکاح کرسکتی ہے ،لیکن چونکہ سائل نے جب مذکورہ الفاظ ’’ میں اپنی منکوحہ کو طلاق دیتا ہوں اور جب بھی میں اس سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہو ‘‘کہے تو اب سائل جب بھی اس عورت سے نکاح کرے گا ، تو نکاح کرتے ہی اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوکر میاں و بیوی کا نکاح ختم ہوجائے گا ، البتہ اب اگر سائل یہ چاہتا ہو کہ اس کا اسی عورت سے نکاح ہوجائے اور بیوی پر طلاق بھی واقع نہ ہو ، تو اس کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ (تحلیل شرعی کے بعد)کوئی دوسرا شخص سائل کے علم میں لائے بغیراور اجازت طلب کیے بغیر اپنی مرضی سے سائل کا نکاح اس عورت سے کرادے، پھر سائل کو معلوم ہونے پر وہ زبانی طور پر اس نکاح کی اجازت دینے کے بجائے بالفعل یعنی اپنے عمل سے مثلاً مہر بیوی کو حوالہ کرنے وغیرہ کے ساتھ اس نکاح پر رضامندی کا اظہار کرے ، تو ایسا کرنے سے سائل کا نکاح درست منعقد ہوکر میاں بیوی کا ساتھ زندگی بسر کرنا درست ہوگا ۔
حوالہ جات
المبسوط للسرخسي (24/ 40):
وقالوا: طلاق المكره، واقع سواء كان المكره سلطانا، أو غيره أكرهه بوعيد متلف، أو غير متلف،
الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية (5/ 35):
(وأما) (أنواعه) فالإكراه في أصله على نوعين إما إن كان ملجئا أو غير ملجئ فالإكراه الملجئ هو الإكراه بوعيد تلف النفس أو بوعيد تلف عضو من الأعضاء والإكراه الذي هو غير ملجئ هو الإكراه بالحبس والتقييد.
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (3/ 235):
(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح
الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية (1/ 355):
وإذا قال لامرأته أنت طالق وطالق ولم يعلقه بالشرط إن كانت مدخولة طلقت ثلاثا وإن كانت غير مدخولة طلقت واحدة
الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية (1/ 415):
ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين فلا يتحقق الحنث بعده إلا في كلما لأنها توجب عموم الأفعال فإذا كان الجزاء الطلاق والشرط بكلمة كلما يتكرر الطلاق بتكرار الحنث حتى يستوفي طلاق الملك الذي حلف عليه
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 345):
(قوله: وكذا كل امرأة) أي إذا قال: كل امرأة أتزوجها طالق، والحيلة فيه ما في البحر من أنه يزوجه فضولي، ويجيز بالفعل كسوق الواجب إليها، أو يتزوجها بعد ما وقع الطلاق عليها؛ لأن كلمة كل لاتقتضي التكرار. اهـ. وقدمنا قبل فصل المشيئة ما يتعلق بهذا البحث.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 23):
ولو عقد اليمين على التزوج بكلمة كلما فطلقت ثلاثا بكل تزوج ثم تزوجها بعد زوج آخر طلقت؛ لأنه أضاف الطلاق إلى الملك، والطلاق المضاف إلى الملك يتعلق بوجود الملك بخلاف الدخول،
الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية (1/ 415):
ولو دخلت كلمة كلما على نفس التزوج بأن قال: كلما تزوجت امرأة فهي طالق أو كلما تزوجتك فأنت طالق يحنث بكل مرة وإن كان بعد زوج آخر هكذا في غاية السروجي.
ارسلان نصیر
دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی
29/شوال/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | راجہ ارسلان نصیر بن راجہ محمد نصیر خان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |