03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
چھپ کر نکاح کرنے کا حکم
87303نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

ایک لڑکی اور میں شادی کرنا چاہتے ہیں مگر ہمارے گھر والے ابھی ہماری شادی کے لئے نہیں مان رہے اس لئے ہم کورٹ میرج کرنا چاہتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر کل کو گھر والے مان جاتے ہیں اور نکاح بھی دوبارہ پڑھتے ہیں ، تو اگر ہم نے  پہلے والے نکاح کے بارےمیں گھر والوں کو نہیں بتایا ،تو کیا اس طرح کرنے سےہمارے نکاح پر کوئی اثر ہوگا؟    شریعت کا کیا حکم ہے اس بارے میں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعتِ مطہرہ نے لڑکی اور لڑکے دونوں اورخصوصاً لڑکی کی حیاء ،اخلاق ،معاشرت کا خیال رکھتے ہوئے ولی کے ذریعے نکاح کا نظام قائم کیا ہے ،یہی شرعااور اخلاقا پسندیدہ طریقہ ہے ،اسی میں دینی ،دنیوی اور معاشرتی فوائد ہیں،نکاح میں اس قدر اخفاء کہ لڑکا اور لڑکی کے والدین کو بھی خبر نہ ہو یا ان کی اجازت ورضامندی کے بغیر نکاح کرلینا منشأ شریعت ،نیز عرفا شرم وحیاءکے خلاف ہے، اللہ تعالی  نے والدین اور اولاد کے درمیان جو رشتہ محبت قائم کیا ہے اس کی نظیر دنیا میں نہیں، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اولاد، والدین کی ہر جائزبات میں اطاعت کرے اور ان کے مشورہ سے اپنے اُمور کو سرانجام دے، نہ یہ کہ اولاد ایسے اسباب پیدا کرے جن سے والدین کی عزت و آبرو پہ حرف آئےاور برادری اور خاندان میں رسوائی کا سبب ہو۔(ماخوذ از تبویب: 84706)

 لہذا کورٹ میرج شرعاً، عرفاً اور اخلاقاًنامناسب عمل ہے، جس سے گریزکرنا چاہیے، تاہم   اگر عاقل و بالغ لڑکا اور عاقلہ  بالغہ  لڑکی کورٹ میرج کے ذریعہ ولی کی اجازت کے بغیر  باقاعدہ گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرکے کورٹ میں نکاح کرلیں تو شرعًا وہ نکاح منعقد ہوجاتا ہے،اس کے بعد گھر والوں کے علم میں لاکر دوبارہ اعلانیہ نکاح پڑھوانا جائز ہے، یہ نکاح پر نکاح کی ممنوعہ صورت میں داخل نہیں ہے۔لیکن سائل کے گھر والے اگر نکاح کے لیے نہیں مان رہے تو ان کی اجازت کے بغیر چھپ کر کورٹ میرج کرنے سے دونوں خاندانوں کے درمیان ناچاقی یقینی ہے اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایسے معاملات میں بات قتل و غارت تک جا پہنچتی ہے، لہذاسائل کو چاہیے کہ وہ پہلے گھر والوں کو اس جگہ نکاح پر راضی کرے، کورٹ میرج یا کسی بھی طرح خفیہ نکاح کرنا اسلامی تہذیب و اخلاق سے متصادم اور قابل حوصلہ شکنی ہے۔

حوالہ جات

مسند أحمد (5/ 353):

عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الأيم أولى بنفسها من وليها، والبكر تستأمر في نفسها، وصمتها إقرارها»

سنن الترمذي (2/ 390):

 عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أعلنوا هذا النكاح، واجعلوه في المساجد، واضربوا عليه بالدفوف.

هذا حديث غريب حسن في هذا الباب، وعيسى بن ميمون الأنصاري يضعف في الحديث، وعيسى بن ميمون الذي يروي، عن ابن أبي نجيح التفسير هو ثقة.

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 117):

(‌قوله ‌نفذ ‌نكاح ‌حرة ‌مكلفة ‌بلا ‌ولي) ؛ لأنها تصرفت في خالص حقها وهي من أهله لكونها عاقلة بالغة ولهذا كان لها التصرف في المال ولها اختيار الأزواج، وإنما يطالب الولي بالتزويج كي لا تنسب إلى الوقاحة ولذا كان المستحب في حقها تفويض الأمر إليه والأصل هنا أن كل من يجوز تصرفه في ماله بولاية نفسه يجوز نكاحه على نفسه وكل من لا يجوز تصرفه في ماله بولاية نفسه لا يجوز نكاحه على نفسه، ويدل عليه قوله تعالى {حتى تنكح} [البقرة: 230] أضاف النكاح إليها ومن السنة حديث مسلم «الأيم أحق بنفسها من وليها» وهي من لا زوج لها بكرا كانت أو ثيبا، فأفاد أن فيه حقين حقه وهو مباشرته عقد النكاح برضاها، وقد جعلها أحق منه ولن تكون أحق إلا إذا زوجت نفسها بغير رضاه

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص189):

‌وفي ‌الكافي: ‌جدد ‌النكاح ‌بزيادة ‌ألف ‌لزمه ألفان على الظاهر.

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (3/ 112):

حاصل عبارة الكافي: تزوجها في السر بألف ثم في العلانية بألفين ظاهر المنصوص في الأصل أنه يلزم الألفان ويكون زيادة في المهر. وعند أبي يوسف المهر هو الأول لأن العقد الثاني لغو. فيلغو ما فيه. وعند الإمام أن الثاني وإن لغا لا يلغو ما فيه من الزيادة،

ارسلان نصیر

دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی

29 /شوال/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

راجہ ارسلان نصیر بن راجہ محمد نصیر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب