87264 | نماز کا بیان | مسبوق اور لاحق کے احکام |
سوال
اگر کسی شخص کی نماز میں کوئی رکعت رہ جائے تو کیا آخری التحیات میں التحیات پڑھنی چاہیے یا نہیں اگر پڑھنی چاہیے تو کہاں تک پڑھنی چاہیے
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
جب کسی شخص سے نماز با جماعت کی کچھ رکعتیں نکل گئی ہوں تو وہ امام کے ساتھ قعدہ اخیرہ میں صرف تشہد اتنی ہلکی رفتار سے پڑھے کہ امام کے سلام پھیرنے کے قریب ختم ہو جائے۔ یا تشہد( "اشہد ان لا الہ الا اللہ اشہد ان محمد عبدہ ورسولہ" ) کو امام کے سلام پھیرنے تک بار بار دہراتا رہے ۔ تاہم اگر کسی نے درودشریف اور دعا بھی پڑھ لی تو بھی نماز درست ہو جائے گی۔
حوالہ جات
«الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية» (1/ 91):
«(ومنها) أن المسبوق ببعض الركعات يتابع الإمام في التشهد الأخير وإذا أتم التشهد لا يشتغل بما بعده من الدعوات ثم ماذا يفعل تكلموا فيه وعن ابن شجاع أنه يكرر التشهد أي قوله: أشهد أن لا إله إلا الله وهو المختار. كذا في الغياثية والصحيح أن المسبوق يترسل في التشهد حتى يفرغ عند سلام الإمام. كذا في الوجيز للكردري وفتاوى قاضي خان وهكذا في الخلاصة وفتح القدير.»
زاہد خان
دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
21 /شوال/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | زاہد خان بن نظام الدین | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |