87337 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
میری شادی پانچ نومبر 2012ء میں ہوئی ۔شادی کے ایک ماہ بعد ہی مجھے اللہ نے اولاد کی خوشخبری سے نوازا۔ اس حالت میں مجھے میرے والدین بہت یاد آتے تھے، خصوصا میری والدہ ،مگر میرے شوہر کی طرف سے یہ پابندی تھی کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس نہ جاؤں، لیکن میں جانا چاہتی تھی۔ میرے شوہر مزاج کے تیز اور شک بھی کیا کرتے تھے ۔میرا میرے شوہر سے اس بات پر جھگڑا ہوا اور بحث ہوئی کہ مجھے گھر جانے دیں ،لیکن میرے شوہر نے منع کر دیا۔ میں نے گھر جانے کی ضد کی لیکن وہ راضی نہیں ہوئے ،پھر تھوڑی دیر بعد کہا :کہ تم گھر چلی جاو۔ میں نے اس بار منع کیا کہ اب نہیں جاؤں گی ،اس پر غصے میں آ کر انہوں نے کہا کہ" اگر تم اپنے گھر نہیں گئی تو تمہیں طلاق ہے ،طلاق ہے ،طلاق ہے"۔ بعد میں پچھتاوا ہوا اور میں اور میرے شوہر اس بات پر پریشان ہوئے ۔ ہم نے ایک مولانا صاحب سے مشورہ کیا ،انہوں نے مجھے کہا کہ آپ اپنے گھر ہو کر آجائیں تو طلاق واقع نہیں ہوگی بلکہ ایک طلاق بائن ہو جائے گی۔ میں نے مولانا صاحب کی بات پر عمل کیا اور زندگی کو آگے بڑھایا، اس عرصے میں میری دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ کچھ عرصے بعد میرا میرے شوہر کے ساتھ جھگڑا ہوا ۔جھگڑے کے دوران انہوں نے کہا کہ"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"، ایک ہی بار بولا اور خاموش ہو گئے۔ میں نے انہیں مزید بولنے سے روک دیا ،یہ 14 اگست 2023ء کی بات ہے ۔مجھے اس وقت یہ معلوم تھا کہ طلاق نہیں ہوئی۔ اس کے بعد رجوع بھی ہو گیا اور معافی تلافی کے بعد زندگی کو آگے بڑھایا ۔ہمیں مالی پریشانی کا سامنا بھی تھا جس کی وجہ سےمیں نے گھر والوں کی رضامندی سے سکول کی نوکری کر لی ،جو کہ ابھی تک برقرار ہے۔ نوکری کرنے پر شوہر کی طرف سے کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔اس وجہ سے میری توجہ ہٹ گئی اور اس عدم توجہ کی وجہ سے آئے دن بحث ہونے لگی۔ میرے موبائل کے واٹس ایپ پر پاسورڈ لگا ہوا تھا ،جس پر میرے شوہر کو اعتراض تھا ،اس بارے میں میری میرے شو ہر کے ساتھ بحث ہوئی اور انہوں نے کہا کہ" اگر میرا کسی نامحرم سے کوئی ایسا تعلق ہوا جو میرے شوہر کے علم میں نہ ہو تو تمہیں طلاق ہے "لیکن میرا کسی سے نازیبا تعلق نہیں ہے۔ میرے شوہر کو یہ بھی شک تھا کہ ان کا چچازاد بھائی مجھے فالو کرتا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے درمیان بحث ہوئی اور ماہ رمضان کے دوران میرے شوہر نے مجھے کہا کہ "آج سے میرا اور تمہارا تعلق ختم ،تم اپنے راستے ،میں اپنے راستے ،آئے دن ہر بات پہ جھگڑا ،جاؤ ،اپنے گھر چلی جاؤ" ۔میرے والدین کا گھر میرے گھر کے بالکل سامنے ہے۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ آپ نے یہ جملہ کہا کہ" میرا اور تمہارا تعلق ختم "،تو کیا آپ نے مجھے طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، بقول میرے شوہر کے" میری تمہیں چھوڑنے کی یا طلاق دینے کی نیت نہیں تھی، اور حلفیہ اقرار کرتے ہوئے کہا کہ"میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر یہ بات کہہ رہا ہوں"۔ وضاحت فرمائیں کہ میرا میرے شوہر سے تعلق باقی ہے کہ نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں جب آپ کے شوہر نے پہلی مرتبہ یہ شرط لگائی کہ اگر آپ اپنے والدین کے گھر نہ گئی تو آپ کو تین طلاقیں ہیں ، اس کے بعد آپ اپنے گھر سے ہو آئیں تو شرط پوری ہو گئی اور کوئی طلاق واقع نہ ہوئی ۔ اس کے بعد 14 اگست 2023ء کو آپ کے شوہر نے آپ کو جھگڑے کے دوران ایک طلاق رجعی دی اور اس سے رجوع کرلیا، اس کے بعد آ پ کے شوہر کے پاس دو طلاقوں کا اختیار باقی رہا ۔
اس کے بعد آپ کے شوہر نے آ پ کو اس شرط کے ساتھ طلاق دی کہ" اگر آ پ کا کسی نامحرم سے کوئی ایسا تعلق ہو،جو آپ کے شوہر کے علم میں نہ ہو "، تو یہ مشروط طلاق اپنی شرط کے ساتھ باقی ہے ، اگر آپ نے کسی بھی نامحرم سے کوئی ایسا تعلق رکھا جو آپ کے شوہر کے علم میں نہ ہوا ،تو ایک طلاق رجعی واقع ہو جائے گی ۔
رمضان میں آپ کے شوہر نے جب یہ کہا کہ "آج سے میرا اور تمہارا تعلق ختم ،تم اپنے راستے ،میں اپنے راستے ،آئے دن ہر بات پہ جھگڑا ،جاؤ ،اپنے گھر چلی جاؤ"، تو شوہر کا یہ الفاظ استعمال کرنا کہ :"میرا اور تمہارا تعلق ختم "، " تم اپنے گھر چلی جاؤ ، " یہ الفاظ کنایہ میں سے ہیں ،اگر ان الفاظ کی ادائیگی کے وقت شوہر کی نیت بیوی کو طلاق دینے کی تھی تو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی، چونکہ شوہر نے قسم کھا کر کہا ہے کہ اس کی نیت طلاق کی نہیں تھی، لہٰذا شوہر کی بات کا اعتبار ہوگا ،چنانچہ نکاح برقرار ہے اور طلاق واقع نہیں ہوئی ۔
یہ بات ملحوظ رہے کہ( شوہر کے علم میں لائے بغیر نامحرم سے تعلق رکھنے کی) شرط والی طلاق اپنی شرط کے ساتھ تاحال باقی ہے ، نیز شوہر کو آئندہ دو طلاقوں کا اختیار ہوگا ۔
حوالہ جات
الفتاوی الھندیۃ( ج 1 ، ص 420 ، ط : ماجدیہ ) : و اذا اضافہ الی الشرط وقع عقیب الشرط اتفاقاً مثل ان یقول لأمرأتہ ان دخلت الدار فأنت طالق الخ
الهدايۃ : (2/254)
والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي " وهذا صريح في الرجعة (الی قولہ )قال: " أو يطأها أو يقبلها أو يلمسها بشهوة أو بنظر إلى فرجها بشهوة اھ ۔
الفتاوى الهندية :(1/ 375) ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح، يقع الطلاق إذا نوى۔
البحر الرائق(3/ 326):
(قوله: اخرجي اذهبي قومي) لحاجة أو لأني طلقتك، قيد باقتصاره على اذهبي؛ لأنه لو قال: اذهبي فبيعي ثوبك لا يقع، وإن نوى، ولو قال: اذهبي إلى جهنم يقع إن نوى،كذا في الخلاصة، ولو قال: اذهبي فتزوجي، وقال: لم أنو الطلاق لم يقع شيء؛ لأن معناه تزوجي إن أمكنك وحل لك، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان.
منیب الرحمنٰ
دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
02/ذی قعدہ /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | منیب الرحمن ولد عبد المالک | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |