87176 | زکوة کابیان | ان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی |
سوال
میں دل کا مریض ہوں اور ایک ٹانگ سے جزوی طور پرمعذور شخص ہوں،ایک فیکٹری میں ٹھیکیدار ہوں۔ جو آمدنی مجھے ملتی ہے اس سے بمشکل گھر کا گزارا ہوتا ہے، بعض اوقات قرض لینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔میرے پاس کوئی زمین ،جائیداد، سونا،چاندی، ذاتی گھر یاکوئی جمع پونجی، بینک بیلنس نہیں ہے ۔کیا مجھ پر زکوۃ فرض ہے ؟کیا میں زکوۃ،صدقات، لینے کا حقدار ہوں ؟جبکہ مجھ پر مختلف لوگوں کا پانچ لاکھ سے زیادہ قرضہ اس وقت موجود ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سونے، چاندی، مالِ تجارت، اور روزمرہ استعمال کی اشیاء سے زائد سامان کی قیمت لگا کر، اس میں نقدی کو شامل کیا جائے۔ اگر ان تمام چیزوں کے مجموعے یا ان میں سے بعض کی مجموعی مالیت 612.35 گرام چاندی کی قیمت سے کم ہو، تو ایسا شخص زکوٰۃ اور صدقات واجبہ لینے کا مستحق ہوگا۔ لیکن اگر ان میں سے کسی کا بھی مجموعہ 612.35 گرام چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، تو ایسے شخص کے لیے زکوٰۃ اور صدقات واجبہ لینا جائز نہیں۔ البتہ، وہ صدقات غیر واجبہ لے سکتا ہے۔ضرورت سے زائد لباس، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر، ٹی وی، اور وی سی آر جیسی غیر ضروری اشیاء انسانی حاجات میں شامل نہیں، لہٰذا ان کی قیمت بھی حساب میں شامل کی جائے گی۔
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں، اگر سائل صاحبِ نصاب نہیں ہے، تو اس کے لیے زکوٰۃ اور صدقات واجبہ لینا جائز ہے، بصورتِ دیگر زکوٰۃ اور صدقات واجبہ لینا جائز نہیں۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 189)
لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي.
زاہد خان
دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
16/ر مضان1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | زاہد خان بن نظام الدین | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |