03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کرنسی کاکاروبار کرنا
87210خرید و فروخت کے احکامبیع صرف سونے چاندی اور کرنسی نوٹوں کی خریدوفروخت کا بیان

سوال

کرنسی کا کاروبار کرتا ہوں، میں ڈالر  یا  درہم  ادھارپر بیچتاہوں  ، مثلا آج  ڈالر کا ریٹ 290 ہے، میں ایک مہینے کے ادھار پر 305 روپے پردیتا ہوں اور دو   مہینوں کے حسا ب سے    320 روپے کے ادھار پر  دیتا ہوں،البتہ معین مدت سے  اگروقت زیادہ ہوجائےتو میں پیسے میں کوئی زیادتی نہیں کرتا ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دو مختلف ملکوں کی کرنسیوں کا آپس میں تبادلہ دو شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1۔دونوں میں سے کسی ایک پر معاملہ کی مجلس میں فوری قبضہ ہو۔

2۔معاملہ مارکیٹ ریٹ پر کیا جائے،مارکیٹ ریٹ سے کمی بیشی جائز نہیں،کیونکہ مارکیٹ ریٹ سے زیادہ قیمت پر تبادلے کی اجازت سے سود کا دروازہ کھلنے کا اندیشہ ہے۔

لہذا صورت مذکورہ میں اگر درہم یا ڈالر کی  ادھار بیع مارکیٹ ریٹ پر ہے تو جائز ہے ورنہ جائز  نہیں ہے۔

حوالہ جات

«بحوث في قضايا فقهية معاصرة» (ص170):

«وهل يجوز هذا البيع نسيئة؟ كما هو معمول به اليوم عند كثير من التجار وعامة الناس، أنهم يعطون عملة بلدهم، بشرط أن يؤدي الآخذ بدلها في شكل عملة بلد آخر بعد مدة، مثل أن يعطي زيد عمرا ألف ريال سعودي في المملكة السعودية، بشرط أن يؤدي عمرو بدلها أربعة آلاف ربية باكستانية في باكستان.

فأما عند الحنفية فيجوز هذا البيع؛ لأن الأثمان لا يشترط فيها كونها مملوكة للعاقد عند البيع عندهم، فيصح فيها التأجيل عند اختلاف الجنس، قال شمس الأئمة السرخسي رحمه الله: وإذا اشترى الرجل فلوسا بدراهم ونقد الثمن، ولم تكن الفلوس عند البائع، فالبيع جائز؛ لأن الفلوس الرائجة ثمن كالنقود. وقد بينا أن حكم العقد في الثمن وجوبها ووجودها معا، ولا يشترط قيامها في ملك بائعها لصحة العقد، كما لا يشترط ذلك في الدراهم والدنانير)»

 زاہد خان

15/رمضان 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زاہد خان بن نظام الدین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب