03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پراویڈینٹ فنڈ کا حکم
87229امانت ودیعت اورعاریت کے احکاممتفرق مسائل

سوال

میں ایک ٹیکسٹائل مل میں کام کرتا ہوں ۔ میری تنخواہ سے ہر ماہ 2896 روپے پراویڈینٹ فنڈ کی مد میں کٹتے ہیں ۔ اس پر ادارہ اپنی طرف مزید اتنی رقم اس میں ڈالتا ہے ۔ اور پھر سال بعد پر اس پر منافع لگاتے ہیں ۔

مثال کے طور پر 2896×12 ، یہ بنے 34752 سالانہ میرے کاٹتے اور اس اتنے ہی ادارہ پیسے جمع کرتا اور پھر اس  پر 8% منافع لگا کر جو تقریبا 5560 روپے سالانہ بنتا ہے ۔ سب ملا کر  75064 روپے سالانہ بنتے ۔

اب سوال یہ ہے   کہ صرف 5560 روپے جو سود کی شکل میں منافع کہتے وہ مجھے سالانہ بغیر ثواب کی نیت صدقہ کرنا ہوگا ؟ یا پھر سوائے اپنی رقم کے سب ہی صدقہ کرنا ہوگا ؟

ہمارے ادارے میں پراویڈنٹ فنڈ اختیاری ہے ۔   اب میں جاننا یہ چاہتا ہوں کہ   کیا میں اس فنڈ میں اپنا حصہ  جاری رکھوں  یا کلی طور پر پراویڈنٹ فنڈ ختم کردوں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پراویڈینٹ فنڈ اختیار ی ہونے کی صورت میں بھی اس پر ملنے والا اضافہ شرعا  سود نہیں ،بلکہ تنخواہ ہی کا حصہ  ہے۔لہذا اصل ملازمت جائز ہونے کی صورت میں اصل  رقم پر ملنے والا اضافہ لینا جائز ہے ، تاہم  اس کو ختم کرنا یا لے کر صدقہ کرنا بہتر ہے ۔ لینا اس لیےجائز ہےکہ قبضہ سے پہلےپیسے ادارہ  کی ملکیت ہیں ،لہذا ریٹائر ہونے پر یہ رقم مع اضافہ کےاجرت شمارہوگی۔اور نہ لینا اس لیےبہتر ہےکہ چونکہ ادارہ نے ملازم کی رضامندی سے اس کی رقم  سے کٹوتی کی ہےاور اس پر اس کو اضافہ دے رہا ہےاس لیے  سود کے ساتھ ظاہری  مشابہت پائی جارہی ہے۔ ، تاہم لے کر استعمال کرنے پر ربا کا گناہ نہیں ہوگا۔

واضح رہےکہ یہ حکم اس صورت میں ہےجب  متعلقہ ادارہ یہ رقم اپنے اکا ونٹ میں رکھتا ہو یا ملازم کی اجازت کے بغیر کسی  دوسرے مستقل ادارے یا  ٹرسٹ کو دے رہا ہو، کیونکہ اس صورت میں متعلقہ ادارہ اس رقم کا مالک شمار ہوتا ہے، ملازم کا اس میں کسی قسم کا عمل دخل نہیں  ہوتا، اس کے برعکس  اگر وہ ملازم کی اجازت سے کسی مستقل ادارہ  یا ٹرسٹ کو دے رہا ہو تو پھراگر وہ مستند مفتیان کرام کی نگرانی میں کسی  جا ئز اور حلال کاروبار میں انویسٹمنٹ کرکے اس کے نفع میں سےایک متعین حصہ  ملازم کو دیتا ہوتو اضافہ لینا جائز ہے، اگر کسی حرام کا روبار میں لگا کرنفع کماتا ہو یا قرض دے کر اس پر اضافہ لیتاہواور وہ ملازم کو دیتا ہوتو اضافی رقم لینا جائز نہیں۔ کیونکہ  ملازم کی اجازت کی صورت   میں ، ملازم ہی اس رقم کا مالک شمار ہوتا  ہے اور   متعلقہ ادارہ بطور وکیل ملازم کے لئے انویسٹمنٹ  کر رہا ہے  اور  وکیل کا عمل گویا کہ موکل خود وہ کام کر رہا ہے، لہذا موکل خود اگر اس قسم  کی انویسٹمنٹ کرتا ہے تو وہ شرعا جائز نہیں ہے، اس طرح متعلقہ ادارے کو وکیل بنا کر بھی یہ عمل جائز نہیں ہے۔ (مستفاداز تبویب      83755)

حوالہ جات

سنن الترمذي (4/ 668):

حدثنا أبو موسى الأنصاري حدثنا عبد الله بن إدريس حدثنا شعبة عن بريد بن أبي مريم عن أبي الحوارء السعدي قال: قلت: للحسن بن علي ما حفظت من رسول الله صلى الله عليه و سلم؟ قال: حفظت من رسول الله صلى الله عليه و سلم: دع ما يريبك إلى مالا يريبك؛ فإن الصدق طمأنينة، وإن الكذب ريبة۔

البحر الرائق (8/ 5):

قال رحمه الله ( والأجرة لا تملك بالعقد بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن منه ) يعني الأجرة لا تملك بنفس العقد سواء كانت عينا أو دينا وإنما تملك بالتعجيل أو بشرطه أو باستيفاء المعقود عليه وهي المنفعة أو بالتمكن من الاستيفاء بتسليم العين المستأجرة في المدة ۔

زاہد خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

13/شوال1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زاہد خان بن نظام الدین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب