03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
الیکشن امیدوار سے رقم ضبط کرنا بطور ضمانت
87125امانت ودیعت اورعاریت کے احکاممتفرق مسائل

سوال

ہمارے گاؤں والوں نے الیکشن مہم کے دوران ایک امیدوار سے پچیس لاکھ روپے بطور ضمانت اس شرط پر رکھوائے تھے کہ وہ کامیابی کے بعد ہمارے لیے ٹیوب ویل لگوائے گا۔ تاہم، چار سال گزر جانے کے باوجود ٹیوب ویل کا کوئی اتاپتا نہیں، اگرچہ وہ امیدوار دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے حکومت سے منظوری لے لی ہے، لیکن معاملہ ابھی تک زیرِ التواء ہے۔

اس دوران کچھ گاؤں والوں نے مایوسی کی حالت میں اپنے ووٹوں کے بدلے رقم وصول کر لی، جبکہ کچھ رقم ابھی باقی ہے۔ اب سوالات یہ ہیں کہ:

کیا گاؤں والوں کے لیے  باقی رقم کو آپس میں تقسیم کرنا اور اسے استعمال کرنا شرعاً جائز ہے؟

اگر وہ امیدوار دوبارہ اپنی دی گئی رقم کا مطالبہ کرے تو کیا وہ اس کا حقدار ہوگا؟

 اگر وہ امیدوار حکومت سے منظور شدہ فنڈ اس رقم کے عوض خود استعمال کر لے تو کیا یہ شرعاً جائز ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

الیکشن میں امیدوار عوامی نمائندہ ہوتا ہے، جو عوام سے اس بنیاد پر ووٹ حاصل کرتا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہو جائے تو ان کے جائز حقوق دلائے گا۔ لہٰذا، شرعی طور پر امیدوار پر لازم ہے کہ وہ اپنی  ذمہ داری کو دیانت داری اور احسن طریقے سے نبھائے۔ اگر وہ اس میں کوتاہی کرتا ہے، تو وہ شرعاً گناہگار ہوگا۔

اسی طرح ووٹ دینا بھی ایک شرعی ذمہ داری ہے، اور اسے چند پیسوں کے عوض بیچنا جائز نہیں ہے۔ ووٹ کو ایک امانت سمجھتے ہوئے، دیانت دار اور قابل امیدوار کے انتخاب کے لیے استعمال کرنا ضروری ہے۔

اگر گاؤں کے لوگ کسی امیدوار سے اس کی رضامندی سے پچیس لاکھ روپے لے کر اپنے پاس رکھتے ہیں، تو یہ رقم عوام کے پاس امانت ہوگی ،  لہذا  عوام کو اس مال میں کسی قسم کا تصرف کرنے کا اختیار نہیں ہے، بلکہ واپس امیدوار کودینا لازمی ہے ۔

اگر امیدوار کو حکومت کی طرف سے فنڈ ملتا ہے، تو یہ عوام کا حق ہے۔ جو فنڈ جس کام کے لیے منظور کیا گیا ہے، اس کو

اسی مقصد کے لیے استعمال کرنا امیدوار پر لازم ہے۔ اس فنڈ کو ذاتی استعمال میں لانا یا کسی غیر متعلقہ مقصد پر خرچ کرنا

ناجائز ہے۔

حوالہ جات

ﵟإِنَّ ٱللَّهَ يَأۡمُرُكُمۡ أَن تُؤَدُّواْ ٱلۡأَمَٰنَٰتِ إِلَىٰٓ أَهۡلِهَا وَإِذَا حَكَمۡتُم بَيۡنَ ٱلنَّاسِ أَن تَحۡكُمُواْ بِٱلۡعَدۡلِۚ إِنَّ ٱللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِۦٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ سَمِيعَۢا بَصِيرٗا 58 يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡۖ فَإِن تَنَٰزَعۡتُمۡ فِي شَيۡءٖ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمۡ تُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِۚ ذَٰلِكَ خَيۡرٞ وَأَحۡسَنُ تَأۡوِيلًا 59 ﵞ [النساء: 58-59] 

 زاہد خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

07/رمضان 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زاہد خان بن نظام الدین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب