03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کی ایک صورت کا حکم (شوہر کے متعلق کسی کو تفصیل سے بتایا تو  تم فارغ ہو )
87338طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

آج سے تقریبا دو سال پہلے میرے اور میرے شوہر کے درمیان بحث ہوئی ۔ میں نے ان سے  کہا  کہ میں سب کو بتا دوں گی کہ میری شادی کس سے ہوئی ہے، یعنی اپنے شوہر کی تفصیل ان کی پہچان سب کو بتا دوں گی ۔انہوں نے کہا "بتایا تو فارغ ہو جاؤ گی"۔ ہمارا تعلق خیبر پختون خواہ سے ہے ۔ اگلے دن میں نے کراچی  کے ایک مفتی صاحب سے( جو   نہ مجھے جانتے تھے نہ میرے شوہر کو) فون پر مسئلہ پوچھا اور ان سے میں نے یہ الفاظ کہے کہ میرے شوہر نے مجھ پہ شرط لگائی ہے کہ" میرے بارے میں کسی کو بتایا تو تمہیں طلاق ہے"۔ اس وقت میں نے صرف میرا شوہر کہا تھا ،نہ یہ بتایا تھا کہ وہ کون ہیں ،نہ ہی  ان کی کوئی تفصیل دی تھی۔ مفتی صاحب نے کہا کہ یہ شرط پوری ہو گئی ہے ،آپ کو طلاق بائن واقع  ہو گئی ۔میں پریشان ہو گئی کہ میں نے تفصیل تو نہیں بتائی صرف میرا شوہر کا لفظ استعمال کیا ۔ پھر میں اپنے شوہر سے لڑنے لگی کہ اب بقول مفتی صاحب کے ہم تجدید نکاح کرتے ہیں ۔پہلے تو وہ نہ مانے، پھر میرے مجبور اور اصرار کرنے پر مان گئے اور ہم نے تجدید نکاح کر لیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہماری کوئی طلاق واقع ہوئی تھی؟

دو دن پہلے ہماری لڑائی ہوئی۔ میرے شوہر کے گالی گلوچ کرنے پر مجھے غصہ آیا اور میں نے انہیں میسج کیا کہ مجھے طلاق دے دو ابھی۔ ان کو بھی غصہ آیا،انہوں نے مجھے فون کر کے کہا بولو، طلاق چاہیے تمہیں ؟بولو ہاں، ہاں میں جواب دو ۔میں ڈر گئی  اورخاموش رہی، پھر انہوں نے مجھے کہا" میں نے تمہیں شریعت محمدیہ کے تحت جیسے پہلے طلاق دی تھی نا میں نے تمہیں ایک طلاق اور دی "۔یہ سن کر میں نے فون بند کر دیا اور غصے سے پاگل ہو گئی ۔انہوں نے پھر مجھے کال کی اور میں نے ان سے بہت بدتمیزی کی اور تیسری طلاق کا مطالبہ کیا ۔فون بند ہو گیا اور میں نے ان کے بھائی کو کال کی جس سے میرے شوہر کو اور غصہ آگیا اور 11 منٹ کے بعد انہوں نے مجھے دوبارہ کال کر کے کہا تم نے میرے بھائی کو کال کی ہے نا ؟میں نے کہا ہاں، تو انہوں نے کہا کہ "میں تمہیں تیسری طلاق دیتا ہوں "۔

میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ دوسری دو طلاقوں کے بارے میں بتایا جائے۔ کیا وہ ایک مجلس کی دو طلاقیں دو شمار ہوں گی یا  ایک ؟ اور اب میں اپنے ان شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہوں کہ نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں  جب   آپ کے شوہر نے پہلی مرتبہ   یہ شرط لگائی کہ ان کے متعلق کسی کو تفصیل سے بتایا تو  تم فارغ ہو۔ اس  کے بعد آپ نے مفتی صاحب سے مسئلہ پوچھتے وقت چونکہ اپنے شوہر کی تفصیل ان کو نہیں بتائی  ، نہ ہی مفتی صاحب آ پ کے شوہر کو جانتے تھے اس لئے طلاق واقع نہیں ہوئی اور نہ ہی تجدید نکاح کی ضرورت تھی ، البتہ وہ شرط ابھی بھی باقی ہے۔ دو سال بعد آپ کے شوہر نے  آپ کو دو مرتبہ فون پر طلاق دی ہے ، جس سے دو طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ، دوبارہ ساتھ رہنے کے لئے شوہر کا رجوع کرنا ضروری ہے ۔

یہ بات واضح رہے کہ پہلی مرتبہ والی مشروط طلاق اپنی شرط کے ساتھ تاحال باقی ہے، چنانچہ اگر آپ نے کسی بھی وقت  کسی کو اپنے شوہر کے متعلق تفصیل سے بتادیا تو  تیسری طلاق واقع ہو جائے گی ۔ اس شرط سے نکلنے کا حل یہ ہے کہ دو طلاقوں کے بعد آپ کے شوہر رجوع نہ کریں بلکہ آپ عدت گزاریں اور عدت ختم ہوجانے کے بعد کسی کو اپنے شوہر کے متعلق تفصیل سے بتادیں تو طلاق بھی واقع نہ ہوگی اور شرط بھی پوری ہوجائے گی،  کیونکہ عدت ختم ہوجانے کے بعد معلّق طلاق بھی  ملحق نہیں ہوتی۔اس کے بعد دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے باہمی رضا مندی سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے عوض دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں،نکاح کرنے کی صورت میں شوہر کو آئندہ ایک ہی طلاق کا اختیار ہوگا،لہٰذا آئندہ طلاق کے معاملہ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوگی۔

حوالہ جات

الفتاوی الھندیۃ(  ج 1 ، ص 420 ، ط : ماجدیہ ) : و اذا اضافہ الی الشرط وقع عقیب الشرط اتفاقاً مثل ان یقول لأمرأتہ ان دخلت الدار فأنت طالق الخ
الهدايۃ : (2/254)

والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي " وهذا صريح في الرجعة (الی قولہ )قال: " أو يطأها أو يقبلها أو يلمسها بشهوة أو بنظر إلى فرجها بشهوة اھ ۔

الفتاوى الهندية - (ج 10 / ص 196)

وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز .أما الإنزال فليس بشرط للإحلال.

لو قال لزوجتہ أنت طالق طالق طالق طلقت ثلاثاً۔ (الأشباہ والنظائر ۲۱۹ قدیم)کرر لفظ الطلاق وقع الکل۔ (شامي ۴؍۵۲۱ زکریا)

(الدر المختار ۳۰۶/۳): ( لا ) يلحق البائن ( البائن )… الا اذا کان معلقا بشرط قبل المنجز البائن“

منیب الرحمنٰ

دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

02/ذی قعدہ /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

منیب الرحمن ولد عبد المالک

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب