87065 | وصیت کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
میری والدہ ماجدہ وفات پا چکی ہیں ۔ ان کی زندگی میں میرے بھائی نے انہیں پانچ عدد سونے کی چوڑیاں خرید کر دیں تھیں ۔ اس کے علاوہ میری والدہ کے پاس کچھ اور زیورات بھی تھے ۔ والدہ میرے بھائی کو زندگی میں بارہا یہ کہتی رہی کہ میرے مرنے کے بعد سونے کی چوڑیاں آپ لے لینا۔ ایک دفعہ تو حالت بیماری میں بھائی کو اتار کر دینے کی کوشش بھی کی لیکن بھائی نے یہ سمجھ کر منع کر دیا کہ آپ کی زندگی میں ہرگز نہیں لوں گا۔ اب میری چھوٹی بہن کا یہ موقف ہے کہ چونکہ میری والدہ نے اپنی زندگی میں چوڑیاں بھائی کو واپس نہیں کیں، لہذا یہ بھی ترکہ میں شامل ہیں اور ترکہ کے اصولوں کے مطابق سب کو حصہ ملے گا۔ جبکہ دوسرے دو بھائی چوڑیاں اس بھائی کو دینے پر رضا مند ہیں۔ تو کیابہن کا موقف درست ہے ؟
وہ چوڑیاں بھائی واپس رکھ سکتا ہے ؟
اگر وراثت کے مطابق تقسیم ہونی تھیں اور بھائی نے رکھ لیں تو اکیا بھائی پر اس کا وبال ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں جب بیٹے نے والدہ کے لئے سونے کی چوڑیاں خرید کر حوالے کردی تو وہ سونا والدہ مرحومہ کی ملکیت ہے،اس لئے والدہ کا مرنے کے بعد چوڑیاں بیٹے کو دینے کا مطلب اس کے لئے وصیت کرنا ہے،شرعاً وارث کے لئے وصیت کرنا معتبر نہیں۔
لہذا چوڑیاں ترکہ میں شامل ہوکر ان کے حصہ کے بقدر تمام ورثاء میں تقسیم ہو ں گی،بھائی چوریاں اپنے پاس نہیں رکھ سکتا ہے، ورنہ دوسرےکا مال ناجائز طریقہ سے کھانے کا وبال اس پر ہوگا۔
حوالہ جات
«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» (7/ 337):
(ومنها) أن لا يكون وارث الموصي وقت موت الموصي، فإن كان لا تصح الوصية لما روي عن أبي قلابة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال «إن الله تبارك وتعالى أعطى كل ذي حق حقه، فلا وصية لوارث» وفي هذا حكاية، وهي ما حكي أن سليمان بن الأعمش - رحمه الله تعالى - كان مريضا، فعاده أبو حنيفة رضي الله عنه فوجده يوصي لابنيه، فقال أبو حنيفة: رضي الله عنه إن هذا لا يجوز، فقال: ولم يا أبا حنيفة فقال: لأنك رويت لنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا وصية لوارث» فقال سليمان رحمه الله: يا معشر الفقهاء أنتم الأطباء ونحن الصيادلة.فقد نفى الشارع عليه الصلاة والسلام أن يكون لوارث وصية نصا.
زاہد خان
دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
03/رمضان 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | زاہد خان بن نظام الدین | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |