03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
كال آف ڈيوٹی  گیم کے  اکاؤنٹ بیچنے کا حکم
87066جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

میں کال آف ڈیوٹی ایک  گیم ہے،  پب جی جیسا، اس کے اکاؤنٹس بیچتا ہوں ۔اس میں ، میں بیرون ممالک کے لوگوں لئے   اکاؤنٹز بناتا ہوں ،اس کا لیول بڑھا کر  یا اس میں بندوق وغیرہ  کھلوا کے۔  کیااس قسم کی کمائی میرے لئے حلال ہوگی؟  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

کسی بھی تفریح کے جائز ہونے کےلیے اس میں درج ذیل تین شرائط کا پایا جانا لازمی ہے:

 (1وہ کام بذات خود جائز ہو اور غیر شرعی امور سے پاک  ہو۔

  (2دینی یا دنیاوی لحاظ سے مفید ہو اور  ہر قسم  کی مضرتوں اور لایعنی امورسے پاک ہو۔

(3اس میں اشتغال بقدر ضرورت ہو، غیر ضروری اور حد سے بڑھ کر انہماک  نہ ہو۔

کال آف ڈیوٹی یا پب جی  ، اس قسم کے گیموں میں  مذکورہ شرائط کی رعایت نہیں رکھی جاتی ہے، جس کی تفصیل یہ ہےکہ کا ل اف ڈیوٹی گیم میں کھلاڑیوں کی ٹیم  میں مرد اور عورت  دونوں ہوتے ہیں ،  طبی رپورٹس کے مطابق اس سے جسمانی اور دماغی صحت  پر برے  اثرات مرتب ہورہے ہیں،غیر ضروری انہماک کی وجہ سےدینی فرائض، گھریلو، معاشرتی، تعلیمی اور پروفیشنل ذمہ داریوں  اور حقوق کی ادائیگی میں غفلت کا باعث ہے۔ اس کے نتیجے میں ذہنی  تشدد اور چڑ چڑ ےپن میں اضافہ ہو رہاہے، جس سے  خاندانی اور معاشرتی تعلقات بری طرح متاثر ہورہےہیں،خود پسندی اور ایک  لایعنی  کام میں  قیمتی وقت کے ضیاع کا سبب ہے،  ڈپریشن  کو جنم دینےکی وجہ سے  بے آرامی  اور خود کشی  کا  آلہ   ہے ۔ ، لہذا اس  کا کھیلنا ہی جائز نہیں ہے، جب اس کا کھیلنا جائز نہیں ہے تو اس کے اکاؤنٹ کو بیچ کر پیسے کمانا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ گناہ میں معاونت ہے۔

حوالہ جات

ﵟيَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تُحِلُّواْ شَعَٰٓئِرَ ٱللَّهِ وَلَا ٱلشَّهۡرَ ٱلۡحَرَامَ وَلَا ٱلۡهَدۡيَ وَلَا ٱلۡقَلَٰٓئِدَ وَلَآ ءَآمِّينَ ٱلۡبَيۡتَ ٱلۡحَرَامَ يَبۡتَغُونَ فَضۡلٗا مِّن رَّبِّهِمۡ وَرِضۡوَٰنٗاۚ وَإِذَا حَلَلۡتُمۡ فَٱصۡطَادُواْۚ وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَـَٔانُ قَوۡمٍ أَن صَدُّوكُمۡ عَنِ ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ أَن تَعۡتَدُواْۘ وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡبِرِّ وَٱلتَّقۡوَىٰۖ وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوَٰنِۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِﵞ 

«بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» (4/ 189):

«وعلى هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لا يصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح بخلاف الاستئجار لكتابة الغناء والنوح أنه جائز؛ لأن الممنوع عنه نفس الغناء، والنوح لا كتابتهما وكذا لو استأجر رجلا ليقتل له رجلا أو ليسجنه أو ليضربه ظلما وكذا كل إجارة وقعت لمظلمة؛ لأنه استئجار لفعل المعصية فلا يكون المعقود عليه مقدور الاستيفاء شرعا فإن كان ذلك بحق بأن استأجر إنسانا لقطع عضو جاز.»

 زاہد خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

01/رمضان 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زاہد خان بن نظام الدین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب