03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زکوٰۃ و صدقات  کو مدرسہ میں استعمال کرنے کا حکم
87291زکوة کابیانصدقات واجبہ و نافلہ کا بیان

سوال

بنات کا  مدرسہ  جس کو شروع کئے ہوے پانچ سال کا عرصہ گزر گیا  ہے ،جس میں حفظ و ناظرہ ، دراسات، تفسیر کی کلاسز اور آئندہ سال انشاء اللہ اسکول کی تعلیم کی ترتیب بھی شامل ہے۔ 9 سال سے کم عمر بچے بھی اسکا حصہ ہیں تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب تعداد  ہے۔   کچھ امور پر تسلی بخش جوابات مطلوب ہیں۔

1۔  کیا مدرسہ کی مہتممہ کا لوگوں سے وکیل بن کر زکوۃ لینا اور مدرسہ کے مصارف پر خرچ کرنا جائز ہے ؟

2۔حیلہ ضروری ہوگا یا نہیں؟ نیز حیلہ کی صورت میں جس شخص / خاتون کے ذریعہ حیلہ کر کے زکوۃ وصول کیا جائے،  اس کو عامل ہونے کی حیثیت سے سالانہ معاوضہ 5 یا 8 فیصد کے اعتبار سے دینا درست ہے ؟

3۔صدقہ فطر، صدقہ، فدیہ کی رقم لینا اور اس کو مدرسہ میں خرچ  کرنا جائز ہے یا نہیں ؟نا جائز ہونے کی صورت میں   اب تک جو رقم لی ہے اور خرچ کی ہے،  اس کی ادائیگی کی صورت کیا ہوگی ؟

4۔مدرسہ کی جمع شدہ رقم یا کمیٹی ڈالنےکی صورت  میں جمع شدہ رقم پر سال گزرنے پر زکوۃ ہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 مذکورہ سوالات کے بالترتیب جوابات:

1۔  اگر طالبات کی اکثریت مستحق زکوٰۃ ہو تو مدرسہ کی مہتممہ طالبات  کی طرف سے وکیل بن کر لوگوں سے ان کے لئے زکوٰۃ اور صدقات وصول کرسکتی ہے اور اس کو مدرسہ کے مصارف  پر   خرچ بھی کرسکتی ہے۔ اس کا صحیح طریقہ یہ ہےکہ  مہتممہ طالبات کی   طرف سےان کی زبانی یاتحریری اجازت سے وکیل بن کرزکوۃ کامال وصول کریں،پھران کی اجازت سے وکیل بن کر وہ مال طالبات کے مصارف میں خرچ کریں، اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ داخلہ کے وقت توکیل کی مندرجہ ذیل عبارت طالبات سے پڑھواکر ان سے دستخط لے لئے جائیں تاکہ  مہتممہ کے لئے زکوۃ کامال وصول کرنااوراس کو مدرسہ و طالبات کی ضروریات کے لئے استعمال کرناجائزہوجائے۔

عبارت:

’’ جب تک میں جامعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔سے بحیثیت غیر مستطیع طالب علم منسلک ہوں میری طرف سے جامعہ کی مہتممہ کو یا جس کو وہ اجازت دیں اس کو اختیار ہوگا کہ وہ میرے لئے زکوٰۃ وصدقات کی رقم یا اشیاء وصول کریں۔نیز مہتممِ جامعہ کو میں اس امر کا بھی وکیل بناتا ہوں کہ وہ میری طرف سے اسے طالبات کی ضروریات  قیام وطعام ،تعلیم وغیرہ  کے مصارف میں خود یا اپنے کسی نمائندے کے ذریعہ حسبِ صوابدید صرف کریں یاجامعہ کی ملکیت میں دیدیں یا اس پر وقف کریں ‘‘۔

2۔ حیلہ تملیک کی بجائے اگر داخلے کے وقت مستحقِ زکوٰۃ طالبات  مہتممہ کو زکوۃ وصول کرنے اورپھر ان کی طرف سے تمام طالبات کے مصالح میں خرچ کرنے کا وکیل بناتی ہیں،تو یہ شرعی اعتبارسے بھی درست ہےاور آسان بھی ہے،اس طرح کرنے سے  زکوۃ کی رقم  مہتممہ کے پاس آتے ہی زکوۃ اداء ہو جائے گی اور دوسری توکیل سے مدرسہ کی ملک بھی ہوجائے گی ،لہذا اب یہ  طالبات کے جملہ مصارف میں خرچ ہوسکے گی۔  

صدقۂ فطر، فدیہ اور دیگر واجب صدقات کو مدرسہ کے مصارف میں خرچ کرنا اس وقت جائز ہے جب وہ مذکورہ وکالت کے طریقے کے مطابق حاصل کیے گئے ہوں، کیونکہ صدقاتِ واجبہ کو مستحق کی ملکیت میں دینا شرعاً ضروری ہے۔ بغیر تملیک یا مزکورہ بالا طریقے پر مستحق کی اجازت کے بغیر ان رقوم کو  مدرسہ کے تمام مصارف میں خرچ کرنا جائز نہیں۔البتہ نفلی صدقات کو مدرسے کے کسی بھی جائز مصرف میں خرچ کیا جا سکتا ہے۔ اگر صدقاتِ واجبہ  حیلہ تملیک یا مذکورہ طریقے کے بغیر وصول کئے ہوں،   تواس صورت میں  مہتمم یا مہتممہ جس نے زکوٰۃ وصدقات واجبہ  کی رقم  غلط مصرف پر خرچ کی ہے ،وہ اتنی رقم کے  بقدر     ضامن ہے،رقم اصل مالکان کی اجازت کےساتھ صحیح مصرف  پر  خرچ کرنا  یا  ان کو لوٹانالازم ہے۔ادارے والوں پر لازم ہے کہ جو عمل وہ کرچکے تھے اس پر استغفار کریں اور آئندہ کے لیے اس سے اجتناب کریں۔

4۔مدرسہ کے  پیسوں کو اگر حیلہ تملیک یا  مذکوہ طریقے کےذریعہ حاصل کیا ہو توان پر   زکوٰۃ   لازم نہیں  ۔   اگر حیلہ تملیک  یا مذکورہ  بالا طریقے سے  زکوٰۃ کے     پیسے  حاصل نہ کئےہوں تو اس  صورت میں چونکہ  اس مشترکہ فنڈ میں جمع شدہ رقم کی ملکیت جمع کروانے والے افراد کی ہوگی،اس لئے ان میں سے ہر ایک شخص اپنے جمع کردہ جتنے حصے کا مالک ہوگا، اس پر اسکی زکوٰۃ اس تاریخ کے حساب سے واجب ہوگی جو اس کے اپنے ذاتی نصاب کی ہے۔ لہذا مدرسہ والوں پر لازم ہے کہ ایسے میں رقم کو جمع نہ رکھیں بلکہ طلبہ کی ملک میں دے کر یا ان سے وکالت لے کر جلد از جلد مدرسہ کے مصارف میں خرچ کردیں ۔ باقی کمیٹی کی رقم  قرض ہوتی ہے اور قرض کی زکوٰۃ لازم ہوتی ہے، اس لئے کمیٹی میں کسی شخص نے جتنی رقم جمع کرائی ہو اس کی  زکوٰۃ اس پر لازم ہوگی۔  

حوالہ جات

«تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي» (1/ 258):

«ولو أعطى رجلا مالا يتصدق تطوعا فلم يتصدق المأمور حتى نوى الآمر من الزكاة، ولم يقل شيئا

ثم تصدق به المأمور وقع عن الزكاة، وكذا لو قال عن كفارتي ثم نوى الزكاة قبل دفعه، ‌ولو ‌خلط الوكيل دراهم المزكين ثم تصدق بها عن زكاتهم فهو ضامن،»

«البناية شرح الهداية» (3/ 313):

«دفع إلى فقير بلا نية ثم نواه عن الزكاة، إن كان قائما في يد الفقير أجزأه وإلا فلا، ولو أعطى رجلا مالا ليتصدق تطوعا فلم يتصدق المأمور حتى نوى الأمر عن الزكاة ولم يقل شيئا ثم تصدق به المأمور يقع عن الزكاة، وكذا لو قال له تصدق عن كفارة يمين ثم نواه عن الزكاة، ولو دفع زكاته إلى رجل ليدفعها إلى المصدق عن نصاب الشاة، ثم حول منه إلى الإبل فهو على الأول بخلاف أموال التجارة، فإنها عن الزكاة، ‌ولو ‌خلط الوكيل دراهم المزكي ثم تصدق بها عن زكاتهم فهو ضامن.»

«الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار» (ص127):

«‌ولو ‌خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعا، إلا إذا وكله الفقراء، وللوكيل أن يدفع لولده الفقير

وزوجته لا لنفسه إلا إذا قال ربها: ضعها حيث شئت،»

«المبسوط» للسرخسي (30/ 210):

«فالحاصل: أن ما يتخلص به الرجل من الحرام أو يتوصل به إلى الحلال من الحيل فهو حسن، وإنما يكره ذلك أن يحتال في حق لرجل حتى يبطله أو في باطل حتى يموهه أو في حق حتى يدخل فيه شبهة فما كان على هذا السبيل فهو مكروه، وما كان على السبيل الذي قلنا أولا فلا بأس به؛ لأن الله - تعالى - قال {وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان} [المائدة: 2] ففي النوع الأول معنى التعاون على البر والتقوى، وفي النوع الثاني معنى التعاون على الإثم والعدوان»

«منحة السلوك في شرح تحفة الملوك» (ص242):

«قوله: (ولا يبنى منها) أي من الزكاة (مسجد) لأن التمليك شرط فيها، فلم يوجد، وكذا لا يبنى منها القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه.»

 زاہد خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

15/شوال 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زاہد خان بن نظام الدین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب