03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہر کی رضامندی سے عدالتی خلع کا حکم
87126طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

لڑکی  کی بات پکی ہوئی ،ابھی  صرف نکاح ہوا  رخصتی نہیں،  لڑکا نکاح کے کچھ دن  بعد اپنے کام  کی وجہ  دوسرے ملک چلا گیا۔  کچھ عرصہ بعد لڑکا ،لڑکی میں اختلافات شروع ہوگئے  ،دونوں خاندانوں نے  آپس میں طے کر لیا کہ مسائل کا حل ممکن نہیں، اس لئے الگ ہونا بہتر ہے۔  لڑکی والوں نے عدالت میں خلع کا کیس فائل کیا ۔لڑکے نے وکیل کرلیا اور اپنی جگہ والدہ کو عدالت میں پیش ہونے کا کہا،کیونکہ لڑکا  ملک  سے باہر تھا۔ جج نے دونوں فریقین سے بات کی اور دونوں اس بات پر راضی ہوئے کہ یہ نکاح ختم ہونا چاہئے، لڑکے کی طرف سے  خلع کا اقرار نامہ ان کے وکیل نے پیش کیا ، جس میں  انہوں  نے عدالتی فیصلے     کو قبول کیا ہے اور نکاح ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ لڑکے والوں نے  عدالت میں منگنی کی انگوٹھی  کا مطالبہ بھی کیا جس پر   لڑکی والوں نے عدالت میں ہی لڑکے کی والدہ کو انگوٹھی واپس کر دی،اس کے بعدجج نے فريقین کے سامنے خلع کا  فیصلہ سنا دیا  ۔

کیا اس طرح خلع لے کر اب لڑکی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے، شرعا کیا حکم ہوگا؟

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

   خلع کے شرعاً معتبر ہونے کے لیے میاں بیوی کی باہمی رضامندی کا ہونا ضروری ہے، بغیر شوہر کی رضامندی کے خلع درست نہیں ہوتا۔مذکورہ سوال  اور اس کے ساتھ منسلک دستاویزات  سے معلوم ہوتا ہے کہ   شوہر کی صراحتا رضامندی موجود ہے اور   فیصلے پر دستخط   کر کے رضامندی   کا اظہار  بھی کیا ہے، اس لیے بطورِ خلع  جاری کیا گیا یہ عدالتی فیصلہ شرعاً معتبر  ہے۔

صورت مسئولہ میں میاں ، بیوی کا نکاح ختم ہوکر ایک طلاق بائن پڑ چکی ہے،     اگر نکاح کے بعد میاں بیوی تنہائی میں ایک دوسرے سے نہ ملے ہوں یا ملے ہوں مگر اس سرسری طور پر ، جس میں ہمبستری کا موقع نہ ہوا ہو تو لڑکی پر کوئی عدت بھی نہیں ، لہذاوہ  کسی دوسری  جگہ ،جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے اور اگر نکاح کے بعد تنہائی میں اس طرح ملاقات ہوئی ہو کہ ہمبستری کرنا چاہتے تو کرسکتے تھے تو پھر تین ماہواریاں عدت گزار نے کے بعد نکاح کر سکتی ہے۔

حوالہ جات

«الهداية في شرح بداية المبتدي» (2/ 261):

«" وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به " لقوله تعالى: {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229] " فإذا فعلا ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة ولزمها المال " لقوله عليه الصلاة والسلام: " الخلع تطليقة بائنة "»

«شرح الوقاية - ت أبو الحاج» (3/ 95):

«لا بأس به عند الحاجة بما يصلح مهرا، وهو طلاق بائن، ويلزم بدله، وكره أخذه إن نشز، وأخذ

الفضل إن نشزت، ولو طلقها بمال، أو على مال وقع بائنا إن قبلت، ولزمها المال.»

«درر الحكام شرح غرر الأحكام» (1/ 389):

«‌‌(باب الخلع) وما صلح مهرا صلح بدل الخلع، الخلع بضم الخاء وفتحها لغة الإزالة مطلقا وبضمها شرعا الإزالة المخصوصة (هو فصل من نكاح بمال بلفظ الخلع غالبا) إنما قال غالبا لأنه قد يكون بلفظ البيع والشراء ونحوهما كما سيأتي (ولا بأس به عند الحاجة) لقوله تعالى {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229] (بما يصلح للمهر) لأن ما يكون عوضا للمتقوم أولى أن يكون عوضا لغير المتقوم لكن لا يجب أن يكون ما يصلح لبدل الخلع مهرا في النكاح كما دون العشرة»

 زاہد خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

03/رمضان 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زاہد خان بن نظام الدین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب