03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدالتی خلع کا حکم
87257طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

ہماری شادی ہوئی اور شادی کے بعد شوہر آسٹریلیاءچلا گیا۔   وہ فون  اور  رابطہ نہیں کرتا  تھا جس  کی وجہ سے میں ڈپریشن میں چلی گئی اور بار بار کہنے پر بھی بات نہیں سنی تو عدالت میں کیس کر دیا ۔ جج نے یک طرفہ طور پر نکاح فسخ کر دیا ، لیکن اب شوہر کہہ رہا کہ میں نے تو طلاق  کے الفاظ اداء نہیں کئے، لہذا یہ نکاح برقرار ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ  یک طرفہ عدالتی فیصلےکا کیا  حکم ہے؟ ہمارا نکاح  ختم ہے یا برقرار؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خلع مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین ) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے ، اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ لہذا خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے ، شوہر کی رضامندی کے بغیر عدالت کی طرف سے جاری کیا گیا یکطرفہ فیصلہ شرعا نافذ نہیں ہوتا اور بیوی  بدستور سابقہ شوہر کے نکاح میں رہتی ہے، جبکہ شوہر کی رضامندی کے بغیر فسح نکاح کا اختیار جج کو صرف درج ذیل صورتوں میں حاصل ہوتا ہے :

ا۔ شوہر نامرد ہو۔

2۔متعنت ہو یعنی نان نفقہ نہ دیتا ہو اور نہ طلاق دیتا ہو۔

3۔مفقود یعنی ایسا لاپتہ ہو کہ اس کا کوئی حال احوال معلوم نہ ہو۔

4۔غائب غیر مفقود ہو یعنی پتہ معلوم ہو، لیکن نہ خود بیوی کے پاس آتا ہو اور نہ بیوی کو اپنے پاس بلاتا ہو اور نہ اسے نان نفقہ فراہم کرتا ہے۔

5۔ ایسا پاگل ہو یا ایسا تشدد کرتا ہو کہ اس کے ساتھ رہنے میں نا قابل برداشت تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

ان کے علاوہ محض عورت کی ناپسندیدگی کی بناء پر جج کو فسخ نکاح کا اختیار حاصل نہیں ہوتا، نیز فسخ نکاح کی ان وجوہات میں سے ہر ایک وجہ کی الگ الگ تفصیلی شرائط ہیں، نکاح فسخ کرتے وقت ان کی رعایت رکھنا لازم ہے، اگر ان میں سے کسی شرط کی رعایت نہ رکھی جائے تو فسخ نکاح کا فیصلہ شرعانافذ نہیں ہوتا۔ ( فقہی مقالات : 192/2)

البتہ عورت مذکورہ بالا وجوہ میں سے جس وجہ کی بنیاد پر بھی فسخ نکاح کا دعوی دائر کرے اسے اپنے دعوی کو شرعی شہادت (کم از کم دو نیک و صالح مردوں یا انہیں صفات کی حامل دو عورتوں اور ایک مرد کی گواہی) سے ثابت کر نا پڑے گا، شرعی شہادت کے بغیر محض عورت کے دعوی کی بنیاد پر عدالت کو فتح نکاح کا حق حاصل نہیں۔

 صورت  مذکورہ میں اس عورت نے اپنے دعوی کو گواہوں کے ذریعے ثابت نہیں کیا، بلکہ عدالت نے محض اس کے دعوی کی بناء پر فسخ نکاح کی ڈگری جاری کی ہے ، اس لئے عدالت کی جانب سے جاری کی گئی ڈگری شرعا معتبر نہیں اور جب تک اس خاتون کا شوہر اسے طلاق یا خلع نہ دے وہ اس کے نکاح میں رہے گی۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع : (315/4)

وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.

«المبسوط» للسرخسي (6/ 173):

«(قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد.»

 زاہد خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

17/شوال 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زاہد خان بن نظام الدین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب