87530 | پاکی کے مسائل | وضوء کے فرائض |
سوال
میں نے سنا ہے کہ اگر وضو یا غسل کے دوران ایک بال برابر جگہ بھی خشک رہ جائے تو وضو اور غسل نامکمل رہ جاتا ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ہاں ،یہ ا س طور پر سچ ہے کہ وضومیں صرف چار چیزیں فرض ہیں:ایک مرتبہ پوراچہرہ دھونا ،ایک دفعہ کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھونا ، ایک بار چوتھائی سر کا مسح کرنا اور ایک مرتبہ ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھونا ۔اگر ان میں سے ایک چیز بھی چھوٹ جائے یادھوئے جانے والے اعضاء میں کوئی جگہ بال برابر بھی خشک رہ جائے تو وضو نہیں ہوگا،جبکہ غسل میں تین چیزیں فرض ہیں:اس طرح کلی کرنا کہ پورے منہ میں پانی پہنچ جائے،ناک کے نرم حصے تک پانی پہنچانااور پورے بدن پر پانی بہانا۔اگر پورے بدن میں بال برابر بھی کوئی جگہ خشک رہ جائے یا غسل کے وقت کلی نہ کی یا ناک میں پانی نہیں پہنچایا تو غسل نامکمل ہوگا،مگر چونکہ نارمل طریقے سے وضو اور غسل کرنے سے پانی ہر جگہ پہنچ جاتا ہے،اس لیے خواہ مخواہ وہم کا شکار ہونا درست نہیں ہے۔
حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 15،19):
قال الله تعالى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ} [المائدة: 6] الآية، ففرض الطهارة غسل الأعضاء الثلاثة ومسح الرأس بهذا النص، والغسل هو الإسالة والمسح هو الإصابة، وحد الوجه من قصاص الشعر إلى أسفل الذقن وإلى شحمتي الأذن؛ لأن المواجهة تقع بهذه الجملة وهو مشتق منها والمرفقان والكعبان يدخلان في الغسل عندنا ... وفرض الغسل: المضمضة والاستنشاق وغسل سائر البدن.
محمدعبدالمجیدبن مریدحسین
دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
05/ ذوالقعدہ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمدعبدالمجید بن مرید حسین | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |