03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دعا میں توسّل کا حکم
87403ذکر،دعاء اور تعویذات کے مسائلرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنے کے مسائل ) درود سلام کے (

سوال

اللهم إني أسألك بيوقاليم يا شوناهيل يا شهرين وأسألك بحرمة كشبيـل وبرديم وبهرائيل ومن عجاجيل وعزاسيل وأسألك بحرمة جبرئيل وميكائيل وإسرافيل وعزرائيل وبحرمة سيدنا محمد صلى الله عليه وسلم وبحق يا كريم يا رحيم أن ترزقني.

کیا اس طرح وسیلہ دے کر  دعا مانگنا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دعا میں اصل یہ ہے کہ ماثور دعائیں (وہ دعائیں جو قرآن وحدیث میں آئی ہیں) مانگی جائیں۔ اسی طرح کسی نیک عمل کے وسیلے سے دعا مانگنا بھی بالاتفاق جائز ہے۔ جہاں تک کسی نیک بندے کا وسیلہ پیش کر کے دعا مانگنے کا تعلق ہے تو اگر دعا ہی اس نیک بندے سے مانگی جائے، یا دعا مانگنے والا یہ سمجھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس نیک بندے کو کچھ اختیارات دئیے ہیں، تو یہ شرک ہے،۔ یا یہ کہ اس کے وسیلے سے جو دعا مانگی جائے وہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ پر لازم ہوجاتا ہے تو یہ بلاشبہہ ناجائز اور حرام ہے۔ لیکن اگر دعا مانگنے والے کا ایسا کوئی خیال اور عقیدہ نہ ہو، بلکہ مقصد یہ ہو کہ یا اللہ! یہ تیرا نیک بندہ ہے، آپ اس سے محبت فرماتے ہیں   اور میں اس سے آپ کے لیے محبت کرتا ہوں ، اس محبت کے طفیل آپ ہی سے مانگ رہا ہوں کہ آپ میری فلاں حاجت پوری کریں تو یہ جائز ہے۔

سوال میں مذکور دعا میں جن اسماء کا وسیلہ دیا  گیا ہے ان میں سے بعض نام غیر معروف ہیں، جیسے: بيوقاليم، شوناهيل، شهرین، كشبيل، برديم، بهرائيل، عجاجيل، عزاسيل  وغیرہ ۔ ان کا ذکر نہ قرآنِ کریم میں ہے، نہ احادیثِ نبویہ میں، اور نہ ہی ان کے ایمان و صلاح یا فرشتوں میں شامل ہونے پر کوئی مستند حوالہ موجود ہے۔ لہٰذا ایسی غیر معروف اور غیر ثابت ہستیوں کے وسیلے سے دعا مانگنے سے اجتناب کیا جائے۔ البتہ مذکورہ دعا میں بعض نام معروف ہیں، جن  كا ذكر قرآن و حدیث ميں موجود ہے، جیسے: حضرت جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل علیہم السلام اور بالخصوص سید المرسلین حضرت محمد ﷺ، تو  دُعا میں ان کا وسیلہ دینا بھی اس شرط کے ساتھ جائز ہے  کہ  دعا اس اعتقاد کے ساتھ مانگی جائے کہ تمام تصرفات صرف اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں، اور ان مذکورہ ہستیوں کو وسیلہ صرف تعظیم و محبت کی وجہ سے  بنایا جا رہا ہے، تو شرعاً ایسی دعا (جس میں صرف معروف  اسماء کا وسیلہ دیا گیا ہو)مانگنا جائز ہے۔

حوالہ جات

روح المعاني، ط:دار إحیاء التراث العربي(6/ 128-124):

يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وابتغوا إليه الوسيلة وجاهدوا في سبيله لعلكم تفلحون.

تحقیق الکلام في هذا المقام………….. وبعد هذا كله أنا لا أرى بأسا فى التوسل إلى الله تعالى بجاه النبى صلى الله عليه و سلم عند الله تعالى حيا وميتا، ويراد من الجاه معنى يرجع إلى صفة من صفاته تعالى، مثل أن يراد به المحبة التامة المستدعية عدم رده وقبول شفاعته، فيكون معنى قول القائل : إلهى أتوسل بجاه نبيك صلى الله عليه و سلم أن تقضى لى حاجتى، "إلهى اجعل محبتك له وسيلة فى قضاء حاجتى". ولافرق بين هذا وقولك "إلهى أتوسل برحمتك أن تفعل كذا"؛ إذ معناه أيضا "إلهى إجعل رحمتك وسيلة فى فعل كذا"…… نعم! لم يعهد التوسل بالجاه والحرمة عن أحد من الصحابة رضى الله تعالى عنهم. ولعل ذلك كان تحاشيا منهم عما يخشى أن يعلق منه فى أذهان الناس؛ إذ ذاك وهم قريبو عهد بالتوسل بالأصنام شىء، ثم اقتدى بهم من خلفهم من الأئمة الطاهرين وقد ترك رسول الله صلى الله عليه و سلم هدم الكعبة وتأسيسها على قواعد إبراهيم لكون القوم حديثى عهد بكفر كما ثبت ذلك فى الصحيح.

 وهذا الذى ذكرته إنما هو لدفع الحرج عن الناس والفرار من دعوى تضليلهم كما یزعمه البعض فى التوسل بجاه عريض الجاه صلى الله عليه و سلم، لا للميل إلى أن الدعاء كذلك أفضل  من استعمال الأدعية المأثورة التى جاء بها الكتاب، وصدحت بها ألسنة السنة؛ فإنه لایستریب منصف فى أن ماعلمه الله تعالى ورسوله صلى الله عليه و سلم ودرج عليه الصحابة الكرام رضى الله تعالى عنهم وتلقاه من بعدهم بالقبول، أفضل وأجمع وأنفع وأسلم، فقد قيل ماقيل إن حقا وإن كذبا         .

سنن الترمذي(569/05):

حدثنا محمود بن غيلان حدثنا عثمان بن عمر حدثنا شعبة عن أبي جعفر عن عمارة بن خزيمة بن ثابت عن عثمان بن حنيف : أن رجلا ضرير البصر أتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال: ادع الله أن يعافيني، قال: إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فهو خير لك، قال: فادعه، قال: فأمره أن يتوضأ، فيحسن وضوءه، ويدعو بهذا الدعاء "اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة، إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لِتُقْضَى لي، اللهم فشفعه في". 

حضرت خُبیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

09 /ذی قعدہ/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

حضرت خبیب بن حضرت عیسیٰ

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب