87413 | روزے کا بیان | نذر،قضاء اور کفارے کے روزوں کا بیان |
سوال
ایک عورت نے کہا کہ میرے بچے اگر حفظ میں داخل ہوگئے تو جب تک مجھ میں ہمت اور طاقت ہے پوری زندگی ہر پیر اور جمعرات کا روزہ رکھوں گی ،لیکن اب اس کو ہڈیوں کی بیماری لاحق ہو گئی ہے ،جس کی وجہ سے جوڑوں میں خون جم رہا ہے اور اٹھنا بیٹھنا تک مشکل ہوگیا ہے ۔تو کیا اس صورت میں اس کی نذر پوری ہوچکی ہےیا نہیں ؟ کیا بیماری سے صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ سے ہر پیر اور جمعرات کےروزے رکھنا لازم ہوں گے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں عورت نے پیر اور جمعرات کے روزے رکھنے کی نذر مانی تھی، مگر یہ نذر عمر بھر کے لیے نہیں تھی، بلکہ اس نے اپنی طاقت اور ہمت کے ساتھ مشروط کی تھی اور جب تک وہ صحت مند رہی، اس نے نذر کے مطابق روزے بھی رکھے ۔ اب اگر وہ اتنی بیمار ہو گئی ہے کہ شرعاً اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے تو بیماری میں اس پر روزے رکھنا لازم نہیں،۔البتہ اگر شفا یاب ہوگئی اور روزہ رکھنے کی ہمت ہے تو پھر دوبارہ روزے رکھنا لازم ہوجائیں گے۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 90):
أما أصل الحكم فالناذر لا يخلو من أن يكون نذر وسمى، أو نذر ولم يسم، فإن نذر وسمى فحكمه وجوب الوفاء بما سمى، بالكتاب العزيز والسنة والإجماع والمعقول.
(أما) الكتاب الكريم فقوله - عز شأنه - {وليوفوا نذورهم} [الحج: 29] ، وقوله تعالى: {وأوفوا بالعهد إن العهد كان مسئولا} [الإسراء: 34] ، وقوله - سبحانه -: {وأوفوا بعهد الله إذا عاهدتم} [النحل: 91] ، والنذر نوع عهد من الناذر مع الله - جل وعلا - فيلزمه الوفاء بما عهد، وقوله - جلت عظمته - {أوفوا بالعقود} [المائدة: 1] أي العهود، وقوله - عز شأنه -: {ومنهم من عاهد الله لئن آتانا من فضله لنصدقن} [التوبة: 75] إلى قوله تعالى: {بما أخلفوا الله ما وعدوه} [التوبة: 77] ألزم الوفاء بعهده حيث أوعد على ترك الوفاء.
محمد اسامہ فاروق
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
10/ذی القعده/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اسامہ فاروق بن محمد طاہر فاروق | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |