87428 | مضاربت کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
زید اور بکر کے درمیان چار لاکھ روپے پر عقد مضاربت ہوا ہے، زید رب المال ہے اور بکر مضارب ہے، اب رب المال نے دولاکھ روپے کا سامان بازار سے قرض لے کر مضارب کو دیا ہے ، رب المال اس سامان کو عقد مضاربت میں داخل کرنا چاہتا ہے، اب یہ عقد کس حالت میں رہے گا اور ان کا منافع کس طرح تقسیم کی جائے گا؟ شریعت میں اس کی حلت اور حرمت کا کیا حکم ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
عقد مضاربت کی درستگی کے لئےچند امور کو ملحوظ رکھنا شرعاً ضروری ہے:
1۔ رب المال مضارب کو نقد رقم کی صورت میں سرمایہ فراہم کرے، سامان کی صورت میں عقد مضاربت درست نہ ہوگا۔
2۔نفع کو فیصدی شرح سے متعین کریں، مثلاً نفع کا چالیس فیصد مضارب کا اور ساٹھ فیصد رب المال کا ہو گا۔
3۔ مضاربت میں نقصان کی صورت میں ،نقصان کو پہلے نفع سے اور پھر اصل سرمایہ سے پورا کیا جائے گا، مضارب بلا تعدی نقصان کا ذمہ دار نہ ہوگا،اس کی صرف محنت رائیگاں جائے گی۔
4۔ اگر رب المال مضارب کو عروض یعنی سامان کی صورت میں سرمایہ دینا چاہتا ہے، تو اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ رب المال مضارب کو سامان دے کر یہ بولے کہ یہ سامان فروخت کرو اور جو رقم حاصل ہو، اس کو مضاربت کے طور پر استعمال کرو، یوں مضارب بطور وکیل سامان فروخت کرے گا، اس سے جو رقم حاصل ہو گی اس کو بطور مضاربت استعمال کرسکتا ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں عقد مضاربت صحیح نہیں ہواہے،اس کو ختم کرکے شق نمبر (4) کے مطابق معاملہ کریں۔
حوالہ جات
الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية» (4/ 285):
وأما شرائطها الصحيحة فكثيرة كذا في النهاية. (منها) أن يكون رأس المال دراهم أو دنانير... (ومنها) أن يكون رأس المال معلوما عند العقد... ومنها) أن يكون رأس المال عينا لا دينا فالمضاربة بالديون لا تجوز... (ومنها) أن يكون المال مسلما إلى المضارب... (ومنها) أن يكون نصيب المضارب من الربح معلوما على وجه لا تنقطع به الشركة في الربح ... ومنها) أن يكون المشروط للمضارب مشروطا من الربح لا من رأس المال حتى لو شرط شيئا من رأس المال أو منه ومن الربح فسدت المضاربة كذا في محيط السرخسي.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع» (6/ 82):
منها) أن يكون رأس المال من الدراهم أو الدنانير عند عامة العلماء فلا تجوز المضاربة بالعروض، ۔۔۔
وقد قالوا: إنه لو دفع إليه عروضا، فقال له: بعها واعمل بثمنها مضاربة فباعها بدراهم أو دنانير وتصرف فيها جاز؛ لأنه لم يضف المضاربة إلى العروض وإنما أضافها إلى الثمن، والثمن تصح به المضاربة، فإن باعها بمكيل أو موزون جاز البيع عند أبي حنيفة بناء على أصله في الوكيل بالبيع مطلقا، أنه يبيع بالأثمان وغيرها، إلا أن المضاربة فاسدة؛ لأنها صارت مضافة إلى ما لا تصح المضاربة به، وهو الحنطة والشعير.
حسن علی عباسی
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
10/ذی قعدہ /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | حسن علی عباسی ولد ذوالفقار علی عباسی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |