87488 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
رات کو میرا چھوٹا بچہ رور رہا تھا تو میرے شوہر نے مجھ سے کہا کہ یہ بچہ کیوں رو رہا ہے؟ تو میں نے کہا کہ عام طور پر بچے رات کو روتے رہتے ہیں تو میرے شوہر میری اس بات کی وجہ سے بہت غصہ ہوئے اور غصہ کی وجہ سے مجھ سے کہا کہ ’’میں نے تجھے طلاق دی‘‘، 2 مرتبہ یہی جملہ دہرایا ،پھر کچھ دنوں کے بعد دوباہ مجھ سے لڑنے لگے تو مجھے چادر پہنا کر مجھ سے کہا ’’نکل میرے گھر سے ‘‘کئی مرتبہ یہی صورت پیش آئی کہ دروازے تک مجھے لاکر کہتے ’’نکل جا میرے گھر سے‘‘ ، شام کو میرا بیٹا مجھ سے لےکر چھت پر چڑھے،تھوڑی دیر بعد نیچے اترے اور اپنی ماں ( میری ساس ) سے کہنے لگے کہ یہ ابھی تک میرے گھر نہیں نکلی ؟ اس واقعے کے کچھ دن بعد میں نے کھانا تیار کیا ۔سالن میں مجھ سے شوربہ زیادہ ہوا تو وہ اس بات کو لیکر بہت غصہ ہوئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ ’’میں تجھے طلاق دیتا ہوں‘‘، 2 مرتبہ یہی کہا، جب تیسری بار کہنے لگے تو ان کے ابو ( میرے سسر ) نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔تو اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا مجھے ان سب صورتوں میں طلاق ہوئی ہے یا نہیں؟ میرے لیے شریعت کا کیا حکم ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں اگر آپ کا بیان واقع کے مطابق ہے تو جب آپ کے شوہرنے آپ کو دو طلاقیں دیں تو اس سے آپ پردو رجعی طلاقیں واقع ہوگئی تھیں ،اس کے بعد شوہر کو رجوع کا اختیار حاصل تھا ، لیکن جب اس نے کہا ’’نکل میرے گھر سے ‘‘ تو اگر اس کی نیت طلاق کی تھی تو ایک طلاق بائن ہو گئی اور یوں تین طلاقیں مکمل ہونے کے بعد حرمت مغلظہ ثابت ہو چکی ہے ،اور اگر طلاق کی نیت نہیں تھی تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی ،لیکن پھر کئی دن بعد جب آپ کے شوہر نے دوبارہ دو مرتبہ ’’میں تجھے طلاق دیتا ہوں‘‘ کے الفاظ دوہرائے تو اگر پہلی دو طلاقوں کے بعد تین ماہواریاں گزرنے سے پہلےشوہر نے رجوع کر لیا تھامثلا میاں بیوی آپس میں ملے تھے تو اس سے آپ پر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور حرمت مغلظہ ثابت ہو گئی ہے ،لہذا اس کے بعد آپ کے لئے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہےاور اب موجودہ حالت میں آپ دونوں کا دوبارہ نکاح ممکن نہیں ہے،آپ لوگوں کے ذمے لازم ہے کہ فوری طور پر ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کریں۔
حوالہ جات
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص213):
فروع: كرر لفظ الطلاق وقع الكل،
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (3/ 293):
(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق،
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (3/ 306):
(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا فتح،
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 326):
أن من الكنايات ثلاثة عشر لا يعتبر فيها دلالة الحال ولا تقع إلا بالنية: حبلك على غاربك، تقنعي، تخمري، استتري، قومي، اخرجي، اذهبي، انتقلي، انطلقي،
الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية (1/ 377):
الطلاق الصريح يلحق الطلاق الصريح بأن قال أنت طالق وقعت طلقة ثم قال أنت طالق تقع أخرى ويلحق البائن أيضا بأن قال لها أنت بائن أو خالعها على مال ثم قال لها أنت طالق وقعت عندنا والطلاق البائن يلحق الطلاق الصريح بأن قال لها أنت طالق ثم قال لها أنت بائن تقع طلقة أخرى ولا يلحق البائن البائن بأن قال لها أنت بائن ثم قال لها أنت بائن لا يقع إلا طلقة واحدة بائنة
وفی بدائع الصنائع (3 / 187):
وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل { فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره } وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.
ارسلان نصیر
دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی
14 /ذی قعدہ/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | راجہ ارسلان نصیر بن راجہ محمد نصیر خان | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |