03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مار پیٹ کی صورت میں بیوی کا عدالت سے خلع لینے کاحکم
87435طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

میرے شوہر مجھ پر تشدد کرتے ہیں، مار پیٹ کے علاوہ مجھے مسلسل ذہنی اذیت دیتے ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے ہمارے درمیان میاں بیوی والا کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔ نہ وہ طلاق دیتے ہیں اور نہ ہی خلع کے لیے رضامند ہیں۔ میں ان حالات میں شدید پریشانی میں مبتلا ہوں۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ کیا میں عدالت سے خلع لے سکتی ہوں؟ اور اس ظالمانہ رشتے سے نجات پانے کا شرعی و قانونی طریقہ کیا ہے؟ 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ  نے میاں بیوی دونوں پر ایک دوسرے کے حقوق لازم کیے ہیں، اور دونوں پر لازم ہے کہ بقدر استطاعت  ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کریں یعنی  جس طرح بیوی پر شوہر کے حقوق کی ادائیگی کرنا لازم ہے، اسی طرح شوہر پر بیوی کا نان نفقہ اور دیگر حقوق لازم کیے ہیں،    چنا چہ قرآن و حدیث میں عورتوں کے حقوق بڑی اہمیت کے  ساتھ  بیان کیے گئے ہیں ، شوہر پر  عورت کے حقوق ادا کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  شوہر پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کےساتھ حسنِ سلوک سے پیش   آئے اور  زوجین کو چاہیے کہ اپنے باہمی حقوق ،   آپس کی نا اتفاقیوں اور رنجشوں کو خود یا  خاندان کےبڑوں کےذریعہ حل کرنے کی کوشش کریں، تاکہ دونوں  دوبارہ سےاپنا گھر بسا سکیں اور شوہر کو سمجھایا جائے کہ وہ اپنے ظلم سے باز آئے،  لیکن  پھر بھی شوہر ظلم سے باز نہ آئے اور زوجین کےمزاج  و طبیعت  ایک دوسرے سے نہ  ملتے ہوں،تمام تر کوشش کے باوجود نباہ کی کوئی صورت نہ بن رہی ہو تو بیوی شوہر کے ظلم  کی وجہ سے طلاق کا مطالبہ یا خلع لے سکتی ہے، لیکن اگر شوہر طلاق یا خلع دینے پر  آمادہ نہیں ہے تو  پھر عورت بامرِ مجبوری کسی مسلمان جج کی عدالت میں شوہر  کے ظلم کرنے کی بنیاد پر فسخِ نکاح کامقدمہ دائر کرے ، جس کا طریقۂ کار یہ ہے  کہ عورت سب سے پہلے عدالت میں شرعی گواہوں کے ذریعہ اپنے نکاح کو ثابت کرے ، اس  کے بعد شوہر کےظلم کرنے کو دو شرعی گواہوں کےذریعہ ثابت کرے، اگر عورت اس دعوے کو دو شرعی گواہوں سے ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی، تو  عدالت شوہر کو حاضر ہونے کا حکم دے، اگر شوہر حاضر نہ ہو یا حاضر ہو اور ظلم سے باز نہ آئے، تو قاضی ان دونوں کے نکاح کو فسخ کردے، اس کے بعد عورت عدت  (تین ماہواری اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو   بچے کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔یاد رہے کہ آج کل عدالتیں محض عورت کے دعوی پر فسخ نکاح کی ڈگری جاری کرتی ہیں ، ثبوت کے لازمی قانونی طریقہ کار کا اہتمام نہیں کرتیں  ایسا فیصلہ شریعت  میں معتبر نہیں۔

حوالہ جات

ﵟفَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا فِيمَا ٱفۡتَدَتۡ بِهِۦۗ تِلۡكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَعۡتَدُوهَاۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ ٱللَّهِ فَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَﵞ [البقرة: 229] 

 زاہد خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

13 /ذی قعدہ 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زاہد خان بن نظام الدین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب